طاقت اکثر انسان کی بہت بڑی کمزوری بن جاتی ہے۔ کسی کے ظرف کا پتہ تب چلتا ہے جب اُس کے ہاتھ میں طاقت ہو اور اُس کے پاس اختیار آجائے اور وہ بہک نہ جائے۔سابق صدر مملکت جناب ممنون حسین اُن چند لوگوں میں سے تھے جن کی فقر و عاجزی میں صدارتی پروٹوکول اور آن بان سے بھی کوئی فرق نہیں آیا۔ہمیں سعودی عرب میں اپنی سفارت کے دوران سابق صدر مملکت کا کئی بار استقبال کرنے اور ان کے ساتھ وقت گزارنے کا شرف حاصل رہا۔سال میں کم از کم ایک دفعہ خانہ کعبہ کا طواف اورروضہ رسول ﷺ پر حاضری کا تسلسل انہوں نے قائم رکھا۔ یہ سلسلہ چار دہائیوں سے جاری تھا اور اُن کی صدارت کے دوران بھی جاری رہا۔جناب ممنون حسین اپنی صدارت کے دوران متعدد بار دیار حبیب آئے۔ایک سربراہ مملکت کا بیرون ملک دورہ اپنے سفارت خانے کیلئے بہت اہم ہوتا ہے۔ ایسے موقعوں پر سفارت کاروں کا کام کئی گنا بڑھ جاتا ہے اوراہم مہمان کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے لیکن مرحوم صدر محترم کا معاملہ کچھ اور تھا۔ وہ تشریف لاتے تو ہمارے ساتھ ایسے ملتے جیسے ایک خاندان کابزرگ اپنے بچوں سے مل رہا ہو۔ہر ایک کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آنا، ہر ایک کا خیال رکھنا اور کسی کو تکلیف نہ دینا ان کا خاصہ تھا۔ہمیں اُن کی یہ بات اچھی لگی کہ جب بھی آتے تواپنے پرانے دوستوں اور جان پہچان والوں کا جو سعودی عرب میں رہتے تھے، پوچھتے اور ان سے مل کر خوش ہوتے۔ کسی شخص کی اچھائی کا پتہ اس سے بھی چلتا ہے کہ ان کے دوست کتنے پرانے ہیں اور وہ کس تپاک سے اُن سے ملتے ہیں۔مرحوم دوستوں کا خیال رکھتے اور دوستیاں نبھاتے تھے۔ ایسے عالی ظرف کہ صدارت سے پہلے جیسے دوستوں سے ملتے صدارت کے دوران بھی ایسے ہی ملتے رہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی شخص یہاں تک کہ راستے پر گزرنے والا بھی اُن سے ملتا تو مرحوم ان سے پہلو تہی نہ کرتے بلکہ خوش ہو جاتے۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اکثر کہیں پاکستانی نظر آتے تو یہ ہاتھ ہلا کر اُن کو سلام کرتے اگر اُن کی توجہ دوسری طرف ہوتی تب بھی۔صدر مرحوم ایک کاروباری شخصیت تھے۔ اس بات پر اُن کو کبھی ندامت نہ تھی اور نہ ایسی کوئی بات انہوں نے چھپائی۔ اپنے ماضی کا ذکر اکثر کرتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ ہم جدہ میں بیٹھے تھے تو انہوں نے اپنی صوبہ سندھ کی گورنری سے لے کر صدارت تک کے سفر کی داستان سنائی۔ اس کہانی میں جو عنصر سب سے نمایاں تھاوہ یہ کہ مرحوم نے خودکسی عہدے کے لئے تگ و دو کی نہ کسی کی ٹانگ کھینچی، نہ چالاکی کی اور نہ سیاسی معاملہ بازی اور جوڑ توڑ میں ملوث رہے۔ جو کچھ ملا اُس پر صبر اورشکر کیا اور جو نہ ملا اُس کی حسرت نہ کی۔بظاہر سیدھا سادہ نظر آنے والا کاروباری شخص ایک دانشور کا ذہن رکھتے تھے۔ ایک دفعہ مکہ معظمہ میں قیام کے دوران ایک صحافی اُن سے ملا اور روزنامہ اردو نیوز جدہ کیلئے انٹرویو کی درخواست کی جو انہوں نے قبول کی۔ ہم نے تجویز دی کہ صحافی سے پوچھ لیتے ہیں کہ وہ کن موضوعات سے متعلق اور کیسے سوالات کریں گے تاکہ کچھ تیاری کر سکیں۔ انہوں نے کہا ”کوئی بات نہیں ان کو پوچھنے دو میں جوابات دے دوں گا“۔پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان گہرے دوستانہ مراسم ہیں لیکن ان دنوں یمن کا معاملہ ہوا تھا جس میں ہم نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا تھا، اس لئے ایسے موقع پر صدر مملکت کا فرمودہ ایک ایک لفظ قابل توجہ تھا۔وقت مقررہ پر انٹرویو شروع ہوا جو کافی دیر چلتا رہا۔ صدر صاحب سے مذکورہ صحافی نے ہر موضوع پر سوالات کئے اور انہوں نے نہایت مناسب اوردانش مندانہ جوابات دیئے جو ایک تجربہ کار سفارت کار ہی کر سکتا ہے۔ہم کہیں بھی ہوتے نماز کا وقت ہوتا اور مسجد قریب نہ ہوتی تو مرحوم امامت کے فرائض انجام دیتے اور ہم اُن کی اقتدا ء میں نماز پڑھتے۔ اگر کوئی سعودی آس پاس ہوتا تو وہ بھی شامل ہو جاتا۔ سابق صدر پاکستان کی رحلت کی خبر سن کر ہمیں اُن کے ساتھ گزرے لمحات یاد آئے۔ اُن کی محبت اور شفقت جو نہ صرف میرے لئے بلکہ ہمارے سب خاندان کے لئے تھی یاد آئی۔ کیا ہی اعلیٰ ظرف، منکسرالمزاج، شریف النفس، ملنسار اور باکردار شخص تھے جو منوں مٹی تلے سو گئے۔