عیدالاضحی سے قبل پٹرولیم مصنوعات اور مائع گیس (LPG) کے نرخوں میں بالترتیب ایک روپیہ اُنتالیس پیسے اور پانچ روپے اضافہ ’آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا)‘ کی جانب سے سفارش کی بنیاد پر کیا گیا ہے جبکہ تجویز کیا گیا تھا کہ پٹرول کے نرخ گیارہ روپے اِکتالیس پیسے فی لیٹر تک بڑھائے جائیں۔ جواز یہ بتایا گیا کہ عالمی منڈی میں گزشتہ کئی ماہ سے پٹرولیم مصنوعات کے بڑھتے ہوئے نرخوں کے پیش نظر پٹرول کے نرخوں میں ساڑھے گیارہ روپے فی لٹر کے قریب اضافہ ہونا چاہئے۔ نئے نرخ کے مطابق پٹرول ایک سو انیس روپے فی لیٹر سے زیادہ‘ لائٹ ڈیزل کے چوراسی روپے سے زیادہ‘ مٹی کا تیل ستاسی روپے سے زیادہ جبکہ ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر ساڑھے اُنیس سو روپے کا ہوگیا ہے۔ گزشتہ ماہ (سولہ جون) سے اب تک کے ایک ماہ کے عرصہ کے دوران پٹرول کے نرخوں میں مجموعی نو روپے تریپن پیسے‘ ڈیزل کے نرخوں میں پانچ روپے ستتر پیسے‘ مٹی کے تیل کے نرخوں میں سات روپے چودہ پیسے اور لائٹ ڈیزل کے نرخوں میں سات روپے دو پیسے فی لیٹر اضافہ ہوا ہے۔ اس سے قبل یکم مئی‘ سترہ مئی اور یکم جون کو پٹرولیم نرخ برقرار رکھے گئے تھے جبکہ اس سال کے آغاز میں یکم جنوری کو پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اڑھائی سے ساڑھے تین روپے فی لیٹر اور ایل پی جی کے نرخوں میں سولہ روپے فی کلو اضافہ کیا گیا جبکہ ماہ جنوری کے تیسرے ہفتے‘ اکیس جون کو بجلی کے نرخوں میں تقریباً دو روپے فی یونٹ اضافہ کیا گیا اور پچیس مارچ (دوہزاراکیس) کو آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی روشنی میں دو آرڈیننس جاری کرکے انکم ٹیکس کی 175ایگزمینیشنز ختم کئے گئے اور نیپرا کے قانون میں ترمیم کرکے اسے بجلی کی قیمت پر دس فیصد سرچارج عائد کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔ ان آرڈیننسوں کے باعث عوام کو 150 ارب روپے کا اضافی بوجھ مختلف ٹیکسوں کی مد میں اٹھانا پڑا۔تحریک انصاف کے تیسرے قومی بجٹ کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا جواز نہیں تھا۔ مروجہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ اور نئے ٹیکس عائد ہونے سے بھی عوام کیلئے سکھ کا سانس لینا مشکل ہوگیا ہے۔پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھاتے ہوئے اگرچہ اُوگرا کی سمری کے مطابق نرخ نہ بڑھانا وزیراعظم کی دردمندی کا عکاس ہے جنہوں نے باور کرایا ہے کہ ”عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کے تسلسل کے ساتھ بڑھتے نرخوں کے باعث ہم بھی نرخوں میں اضافے پر مجبور ہیں“ تاہم نرخوں میں کم اضافہ کرکے عوام کو درحقیقت ریلیف دیا گیا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کا ہمارے نرخوں کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے تو عالمی نرخوں کے حساب سے نرخ بڑھانے کی ضرورت نہیں تھی۔ امر واقعہ ہے کہ تحریک انصاف کے گزشتہ دو سال کے اقتدار کے دوران عالمی مارکیٹ میں مختلف وجوہ پر پٹرولیم نرخوں میں کمی زیادہ ہوئی اور نرخوں میں اضافے کی شرح کم رہی ہے۔ کورونا وبا کے باعث اٹھائے جانے والے احتیاطی اقدامات کے دوران تو عالمی منڈی میں پیٹرولیم نرخ ”زیرو“ تک جا پہنچے تھے مگر ہمارے ملک میں اس کمی کا عوام کو کوئی فائدہ نہ پہنچ سکا اور گزشتہ سال جب ایک بار حکومت نے پٹرولیم نرخوں میں دس روپے لیٹر تک کمی کی تو پٹرولیم مافیا نے ایکا کرکے اس فیصلے کا نفاذ ہی نہ ہونے دیا اور حکومت پٹرولیم مصنوعات کے پرانے نرخ بحال کرنے پر مجبور ہو گئی۔ اس کے بعد پیٹرولیم نرخ دو تین ماہ برقرار ضرور رہے مگر نرخوں میں کمی کا تصور ہی عنقا ہو گیا۔ عالمی منڈی میں خام تیل کے نرخ 71.46ڈالر فی بیرل تھے‘ اس طرح گزشتہ چھ ماہ کے دوران عالمی منڈی میں پٹرولیم نرخوں میں صرف چھ ڈالر فی بیرل اضافہ ہوا جو عرف عام میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں پاکستان میں پٹرولیم نرخ ایک سال کے دوران کئی مرتبہ اضافہ کئے گئے مہنگائی بڑھنے کا بنیادی سبب ہے۔ جو لوگ مہنگائی پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں اُنہیں پیٹرولیم مصنوعات کے محرک کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ حکومتی پالیسیاں کس قدر باعث ِاضطراب ہیں اس بات کا اندازہ عام انتخابات کے بعد قومی و صوبائی اسمبلیوں کیلئے ضمنی انتخابات کے نتائج سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ گیارہ حلقوں پر ضمنی انتخابات میں سے صرف ایک پر حکومتی امیدوار کامیاب ہو پایا۔ اگر حکومت کی یہی اقتصادی اور مالیاتی پالیسیاں برقرار رہیں اور تیل‘ گیس‘ بجلی‘ ادویات اور اشیائے خودرنی کے نرخ بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا گیا جبکہ نئے ٹیکس بھی متعارف کروائے گئے ہیں تو اِس سے عام آدمی (ہم عوام) کے دلوں میں پیدا ہونے والی بدگمانیوں سے حزب ِاختلاف فائدہ اُٹھانے کا بھرپور موقع ملے گا اور یہی وجہ ہے کہ حزب ِاختلاف کے حوصلے ہر دن بلند ہو رہے ہیں اور نئی صف بندیاں ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ حکومت کو بہرصورت مہنگائی کا توڑ کرنا پڑے گا اور ایسی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی جن سے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری میں کمی آئے۔