شہر اُداس اور گلیاں سُونی ہیں۔وہ رونق وہ سماں جو پچھلے سال تھا اس برس نہیں۔کیونکہ گرمی نے وہ رنگ جمایا ہے کہ بندہ سے دور ہوا ہے۔بازار مندا ہوا ہے۔خریدار نہیں ہیں۔شہر سے باہر منڈیاں منتقل کر دی گئی ہیں۔مال مویشی اگر شہر میں کوہاٹی اور گنج دروازے کے باہر برائے فروخت دستیاب ہیں تو بہت کم۔ایسا کہ پابندی کے کارن چھپ کر اگر کسی نے خرید لیا اور کسی نے فروخت کر دیا تواور بات۔ وگرنہ تو اب ڈیلٹا کی آواز سن رہے ہیں۔جو ہماری حدود میں داخل ہو چکا ہے۔اس کا شکارہونے والوں کی تعداد میں اب چوتھی بار اضافہ ہو رہاہے۔پھرپہلے کی تینوں لہروں کی نسبت چوتھی زیادہ خطرناک اور جان لیوا اور مہلک ہے۔لڑکے بالے اپنے گائے بیل دنبے بکرے شام کے بعدلے کرشہرکی تنگ و تاریک سڑکوں پر نکلتے ہیں شور مچاتے ہیں گائے بیل کی پازیبوں کی جھنکار ہوتو گھنٹہ بھر کے بعد یہ نوجوان بھی شہر کی ٹھنڈی گلیوں کے اپنے گھروں میں اس گرمی کے طوفان کے ہاتھوں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ملک بھر میں بارشیں ہوئیں بلکہ سیلاب تک آئے۔ پھر جرمنی میں بیلجیئم میں ایسی بارشیں کبھی دیکھی نہ گئیں کہ راستے میں آنے والی ہر چیز کو بہا کر لے گئیں۔ مگر پشاور شاید یہ وجہ ہو کہ مون سون پڑنے والے شہروں کی فہرست میں شامل ہی نہیں۔ اس لئے یہاں مون سون کی بہار نہیں دیکھی گئی۔ موسمِ برسات تو ہے مگر بادل فی الحال یہا ں بر سے نہیں۔ابرِ باراں ہو مگر دعا ہے خیر والی بارش ہو۔مال نایاب تو نہیں اور گاہک بے خبر بھی نہیں۔ شہر میں سے مویشی منڈیاں اٹھا دی گئی ہیں۔ ان کے بارے میں حکم ہے کہ شہر کے باہر قیام کریں۔اس لئے دور ہونے کی وجہ سے خاص اندرون ِ شہر کے لوگ اس گرمی میں گاؤں کے علاقوں میں مال کی خرید کیلئے نہیں جا رہے۔پھر ان کے نہ جانے کی وجہ مہنگا ئی بھی تو ہے۔اتنا مہنگا مال کہ قیمت سن کر ہاتھوں کے طوطے کیا اڑیں گے کانوں سے دھواں نکلنے لگتاہے۔مال کو سنبھالنے کی جگہ بھی تو ہر ایک کے پاس نہیں۔پھر ونڈا اور چارہ کون سا سستا ہے۔اس لئے شہریوں کو اس میں سہولت ہے کہ اگر کسی کے قوتِ خرید ہے تو وہ عید کے قریب جاکر کہیں گائے دنبہ بکری وغیرہ خریدے گا۔کیونکہ غضب ناک گرمی جو ہے۔ کورونا کی چوتھی لہر تو چھوڑگرمی کی لہر کے ہاتھوں بھی لوگ سڑک پر چلتے چلتے جان ہی سے جا رہے ہیں۔اب تو مال اتناگراں ہے کہ ہمارے بھائی بند اکیلے ہوکر قربانی کرنے سے قاصر ہوئے جاتے ہیں۔ وہ پانچ سات آدمی مل کر ایک قربانی کر نے پر مجبور ہیں۔حصہ ڈالنے میں ان کیلئے آسانی ہے۔پھر اکیلاجانور خریدنے میں ان کو عذر ہے۔ جنھوں نے پچھلے سال ستر ہزار کی چھوٹی سی گائے خریدی وہی اب ایک لاکھ تیس میں خرید رہے ہیں۔ خریدار کوشش میں ہے کہ اونچی لمبی گائے ہو اور بیل ہو مگر کم سے کم قیمت میں ملے۔فروخت کرنے والوں کی کوشش ہے کہ جُل دے کر زیادہ سے زیادہ اینٹھ لیں۔ایک کشاکش ہے جو تاحال جاری ہے۔ خریداروں کو مرضی کا مال مل نہیں رہا۔ ایک کمزور سی گائے دیکھی تو ویسے ہی اپنی جستجو کو تسکین دینے کی خاطر پوچھ لیا کہ کتنے میں خریدی۔لہجہ اور سٹائل ایسا رکھا کہ جیسے ہم اس سے زیادہ خریدنے کی پوزیشن میں ہیں۔اس نے کہا ایک لاکھ روپے۔اس کے جواب میں جانور کی جسامت کو دیکھ کرہماری تو سٹی گم ہو گئی۔ منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔یہ تو ابھی کی بات ہے کہ حاجی صاحب نے دس ہزار کا بیل خریدا تھا۔ ان کو بہت شوق تھا۔ انھوں نے گھر کے صحن کی کوٹھری میں بیل کے قیام کا بندوبست کرنا تھا۔ اس کے لئے پورے گھرکی ٹائیلوں والی فضا کوناسازگار سمجھا گیا۔ کوٹھری میں مویشی کے لئے اینٹوں کا فرش بنوایا۔ اس گائے کی آنکھیں تک مجھے ابھی بھی یاد ہیں۔صحن میں اس کاگوشت پھوڑی پر ڈالا توجیسے پورا صحن بھر گیا۔ اتنا صحت مندبیل کہ اہلِ علاقہ حاجی صاحب کے انتخاب اور ان کی سخاوت اورجیب کی تعریفیں کرتے نہ تھکتے۔آج اگر ہوتے تودیکھتے کہ وہی بیل توتیس لاکھ میں فروخت کر نے کی کوشش ہے۔اگر شوقیہ نہ ہو تو پانچ لاکھ میں مل ہی جائے گا۔چودہ ہزار کا کمزور سادنبہ اور بڑی بکری کی تو اس سال تو چونتیس میں قیمت پڑی۔جن کو اچھی قیمت میں چاہئے تاحال اطلاع یہ ہے کہ ان کی تلاش جاری ہے۔شہر کی وہ رونقیں جو پہلے تھیں وہ تو اس سال مہنگائی اور گرمی نے ہڑپ کر لیں۔پھر مویشی منڈیاں اچھی بات کہ بیرون از شہر منتقل کردی گئی ہیں۔مگر بیچنے والے بیچ رہے ہیں اور خریدنے والے بھی ہر طرح یہ سوداکرہی لیتے ہیں۔پھر اس کارن بھی لوگ منڈیوں کا رخ کرنے سے قاصر ہیں کہ وہاں جاؤ تو کورنا ویکسین کے لگوالینے کی سند دکھلاؤ۔ اس لئے ان کو ارزاں ہے کہ کسی ہمسایے یا رشتہ دار کے سات مل کر قربانی میں حصہ ڈال دیں۔ شہر کی ویرانی میں ان دکانوں کے بند ہونے کا کارن بھی ہے جو گھاس اور ونڈا بیچتے تھے۔جو گائے بیل کے زیورات فروخت کرتے تھے۔جو قیمہ مشینیں برائے فروخت رکھتے اور چھریاں تیز کرنے والے بھی ان کی طرح کم ہو گئے ہیں۔ مہنگائی اور کورونا اور گرمی نے کسی ایک کو بھی کہیں کانہیں چھوڑا۔