مکالمہ لائق توجہ ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ٹریفک پولیس اہلکاروں اور موٹرگاڑی میں سوار ایک خاتون کے درمیان تلخ کلامی کی ویڈیو ”سوشل میڈیا‘‘پر زیرگردش ہے‘ جس میں پولیس اہلکار مہذب انداز میں خاتون ڈرائیور سے کہتے ہیں کہ ”کچھ دن پہلے میں نے آپ کو تنبیہ کی تھی اُور سمجھایا تھا کہ (اپنی موٹر گاڑی پر لگی ہوئی) نمبر پلیٹ تبدیل کر لیں۔“ ذہن نشین رہے کہ قانون کے مطابق موٹررجسٹریشن اتھارٹی کی جانب سے جاری ہونے والی نمبر پلیٹ کے علاؤہ کسی بھی دوسری قسم کی نمبر پلیٹ کا استعمال قانوناً جرم ہے۔ ٹریفک پولیس اہلکار خاتون سے یہ کہتے ہوئے ہیں کہ ”آپ روکنے پر رکی بھی نہیں۔ پلیز (برائے مہربانی) اپنا ڈرائیونگ لائسنس دیں۔“ اِس دوران گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی خاتون اپنا ڈرائیونگ لائسنس تلاش کرتی ہیں اور ٹریفک پولیس اہلکار استفسار کرتے ہیں کہ اِس گاڑی کی اصل نمبر پلیٹیں کہاں ہیں؟‘ خاتون کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا جاتا۔ جب خاتون ٹریفک اہلکار کو ڈرائیونگ لائسنس دیتی ہیں تو اس کے بعد کے منظر میں 2 اور ٹریفک پولیس اہلکار اور اسلام آباد ٹریفک پولیس کی گاڑی بھی نظر آتی ہے۔ ایک اہلکار آگے بڑھ کر خاتون کا ڈرائیونگ لائسنس پکڑ کر چالان بنانا شروع کرتا ہے۔ اس کے بعد ویڈیو بنانے والے ٹریفک پولیس اہلکار اس گاڑی کی نمبر پلیٹ اتارتے نظر آتے ہیں۔ عام حالات میں ٹریفک پولیس کسی کار کو روک کر اس کی جعلی یا نقلی نمبر پلیٹ اتار کر اپنے پاس رکھ لیتی ہے۔ جب ٹریفک اہلکار نمبر پلیٹ اکھاڑ رہے ہوتے ہیں تو برہم خاتون گاڑی سے باہر آ جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ”آپ صرف چالان کریں‘ میں نے آپ کو (اپنی گاڑی سے) نمبر پلیٹ اتارنے کی اجازت بالکل نہیں دی۔“ اس کے بعد خاتون کا غصہ مزید بڑھ جاتا ہے اور وہ ٹریفک پولیس کے ساتھ دست و گریبان ہو جاتی ہیں اور نامناسب الفاظ کا استعمال کرنے کے علاوہ جھگڑتے‘ چیختے‘ چلاتے ایک سیدھے سادے معاملے کو ’پورا تماشا‘ بنا دیتی ہیں حالانکہ یہ سیدھا سادا معاملہ ٹریفک قاعدے کی خلاف ورزی سے متعلق ہے لیکن اِسے غیرضروری طور پر طول دیا جاتا ہے ویڈیو کلپ پولیس اہلکاروں کی جانب سے بنایا گیا جس میں وہ خاتون کو سے درخواست کرتے ہیں کہ ”آپ مجھے نہ چھوئیں اُور آپ جو کچھ بھی کر رہی ہیں غلط کر رہی ہیں۔“ لیکن خاتون کسی بھی دلیل کو سننے اُور ماننے کو تیار نہیں ہوتیں اُور آگے بڑھ کر چالان رقم کرنے والے ٹریفک اہلکار سے اپنا لائسنس چھیننے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس موقع پر ویڈیو بنانے والے ٹریفک اہلکار اپنے ساتھی کو کہتے ہیں کہ ’لائسنس جیب میں ڈال لو‘ اور وہ اپنا ہاتھ پیچھے کرکے ان کی کوشش کو ناکام بنا دیتے ہیں جس کے بعد خاتون کہتی ہیں ’ایک منٹ‘ اور اپنے موبائل پر کوئی نمبر ملانے یا ٹیکسٹ پیغام بھیجنے کی کوشش کرتی ہیں اور ساتھ ہی کہتی ہیں ’آپ نے میری گاڑی کو ہاتھ کیسے لگایا؟‘ اسی دوران یہ خاتون پولیس اہلکار کا فون چھیننے میں کامیاب ہو جاتی ہیں ٹریفک اہلکار انہیں کہتے سنائی دیتے ہیں ”آپ روکنے پر نہیں رکیں اُور بھاگی ہیں۔ گاڑی کو میں نے ٹھیک ہاتھ لگایا ہے‘ یہ غیر قانونی کام ہیں۔“ جس کے جواب میں وہ کہتی ہیں کہ ”یہ غیر قانونی ہے تو میرا مسئلہ ہے۔“ اس کے بعد ٹریفک اہلکار یہ بھی کہتے سنے جا سکتے ہیں ”میڈم آپ عورت ہیں‘ اپنی عزت میں رہیں۔“ بعد کے ویڈیو مناظر سے واضح نہیں ہوتا لیکن آڈیو سن کر یہی تاثر ملتا ہے کہ خاتون ٹریفک اہلکار کا موبائل واپس نہیں کرتیں لیکن ٹریفک اہلکار انہیں کہہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ موبائل دیئے بغیر یہاں سے نہیں جا سکتیں۔ ویڈیو میں خاتون اس ٹریفک اہلکار کا موبائل نیچے پھینک کر توڑنے کی کوشش کرتی ہیں اور ایک ٹریفک اہلکار کو فون اٹھاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اس طرح کے کئی ایک واقعات کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر زیرگردش ہیں اور کراچی کی ایک خاتون کا ٹریفک سگنل توڑنے کے بعد پولیس اہلکار سے بدتمیزی کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔پولیس اہلکاروں کی وردی پر کیمرے نصب کرنے کا تجربہ سب سے پہلے برطانیہ میں سال 2005ء میں ہوا‘ جس کے بعد یہ امریکہ‘ چین‘ ڈنمارک‘ فن لینڈ‘ فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی‘ ہالینڈ‘ سوئیڈن اُور متحدہ عرب امارات کے علاوہ پاکستان میں بھی اِن ’یونیفارم کیمروں‘ کا استعمال کیا جا رہا ہے لیکن پاکستان میں ٹریفک اور دیگر سبھی پولیس اہلکاروں کے یونیفارم پر یہ کیمرے نصب نہیں اور کسی ایسے ملزمان سے نمٹنے کے لئے وہ اپنے موبائل فون کیمرے کا استعمال کرتے ہیں تاکہ بعدازاں ممکنہ محکمانہ تحقیقات میں اپنی بے گناہی ثابت کر سکیں۔ پولیس کے جدید یونیفارم کیمروں اور واکی ٹاکی (مواصلاتی نظام) کو ایک ہی آلے میں سمو دیا گیا ہے اُور اِنہیں مؤثر پولیسنگ کا لازم جز بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پولیس کے لئے مختص مالی وسائل کا بڑا حصہ تنخواہوں کی مد میں ادا ہو جاتا ہے ’مؤثر پولیسنگ‘ کے لئے ضروری ہے کہ پولیس کے جملہ اہلکاروں بشمول ٹریفک پولیس کو ’یونیفارم کیمروں‘ سے لیس کیا جائے‘ ایسا کرنے سے کسی وقوعے کی ویڈیو ’فرانزک‘ کرنے میں بھی آسانی رہے گی‘ جعل سازی کا امکان ختم ہوگا اُور پولیس کے رویئے سے متعلق شکایات کم ہوں گی۔