اختیار ات کی منتقلی 

خیبر پختو نخوا کی حکومت نے نئے ما لی سال کے پہلے دن بجٹ میں دیئے گئے فنڈ محکموں کو جاری کر کے ایک اچھا قدم اٹھا یا ہے اس اقدام کی وجہ سے تر قیا تی عمل تیز ہو گا اور بجٹ میں دیئے گئے منصو بے وقت پر مکمل ہو نگے سر ما ئے کی گردش سے غربت میں کمی آئیگی اور تر قیا تی کاموں کی وجہ سے خد مات کی فرا ہمی کے نظم و نسق یعنی سروس ڈیلیوری میں آسا نی ہو گی جب فنڈ آگئے تو پتہ لگا کہ اختیارات با لائی حکام کو منتقل کئے گئے ہیں اس مسئلے پر جب غور ہو گا تو دو باتیں سا منے آئینگی پہلی بات یہ ہو گی کہ نظم و نسق کی بہتری کے لئے اختیار ات کی نچلی سطح پر منتقلی ہو نی چا ہئے یا نہیں؟ دوسری بات یہ ہو گی کہ اختیارات نچلی سطح پرمنتقل کیوں نہیں ہوتے ؟ دونوں با توں کا ایک ہی جواب ہے یہ پوری دنیا کے تجربات کا نچوڑ ہے کہ سروس ڈیلیوری کی بہتری کے لئے نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی بہت ضروری ہے اور دنیا بھر میں جو اچھی مثالیں ملتی ہیں اُن مثا لوں میں فیلڈ آفیسر وں کے پاس زیا دہ سے زیا دہ اختیارات ہو تے ہیں فیلڈ آفیسر فنڈ کا ایک حصہ کسی دوسری مد میں خر چ کر نے کا مجا ز ہو تو کام میں آسا نی ہوتی ہے فیلڈ آفیسر ما تحت عملے کو تر قی دینے، تبدیل کر نے یا سزا دینے کے وسیع اختیار ات رکھتا ہو تو دفتری نظم و نسق بہتر ہو تا ہے وطن عزیز پا کستان اور صو بہ خیبر پختونخوا میں انتظا می اختیار ات کی تین مثا لیں مو جو د ہیں 1947ء سے پہلے انگریزوں نے فیلڈ آفیسروں کو لا محدود اختیارات دیئے تھے اُس دور میں فیلڈ آفیسر اپنی انسپکشن رپورٹ کے ذریعے ما تحت عملے کو ملا زمت سے بر طرف کر سکتا تھا اس کی تر قی روک سکتا تھا اس کی تنزلی کا حکم دے سکتا تھا اس کو تبدیلی کی سزا بھی دے سکتا تھا 1947ء کے بعد 1958ء تک فیلڈآفیسروں کے اختیارات میں کمی نہیں آئی ما رشل لا ء کے دور میں فیلڈ آفیسروں کے اختیارات کو محدود کیا گیا یہ اختیار ات با لا ئی حکام کو دے دیئے گئے 2001ء میں نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کا بے مثال نظام متعارف کرا یاگیا جس کے تحت ضلع کی سطح پر ترقیاتی عمل، ملا زمین کی تقرری اور ترقی کے معاملا ت طے پا نے لگے اس نظام کو ڈیو لو شن پلان کا نا م دیا گیا 2008کے بعد اس نظام کو ختم کر کے اختیارات ایک بار پھر صو بائی دارالحکومت کو منتقل کئے گئے اس کی ذمہ داری کسی ایک حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی‘ڈی ایچ او ہسپتا ل کا معا ئنہ کر تا ہے لیکن غیر حا ضر سٹاف کے خلا ف کچھ بھی نہیں کر سکتا‘پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے واٹر ٹینک کا والو چوری ہو جا ئے تو ایگزیکٹیو انجینئر والو مین کو بر طرف نہیں کر سکتا، اس کی جگہ نیا والو  لگا نے کے لئے صو با ئی دارلحکو مت سے منظوری لینے کا پا بند ہے واپڈ ا کا ٹرا نسفار مر جل جا ئے تو مو قع پر مو جو د اسسٹنٹ ڈائر یکٹر یا سب ڈویژنل آفیسر اس کی مر مت کر نے کا مجا ز نہیں ہے وہ ڈویژنل انجینئر کو رپورٹ کر تا ہے، جب تک فیلڈ آفیسر کو 2008ء سے پہلے والے اختیارات نہیں ملیں گے، جب تک ڈسٹرکٹ ایجو کیشن آفیسر ایک ٹیچر کو نو کری سے بر طرف کرنے کا مجا ز نہیں ہو گا جب  تک ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر کو تبدیل یا بر طرف کر نے کا مجا ز نہیں ہوگا تب تک نظم و نسق درست نہیں ہو سکتا اور جب تک این ڈی ایم اے کے لا محدود اختیا رات اور کھر بوں روپے فنڈ اضلا ع کی سطح پر ڈپٹی کمشنروں کو نہیں دیئے جا تے تب تک سروس ڈیلیوری نظر نہیں آئیگی اختیار ات کی نچلی سطح پر منتقلی عوام کی ضرورت اور وقت کا تقا ضا ہے۔تاہم اختیارات کے ساتھ وسائل کی منتقلی بھی ناگزیر ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت وفاقی حکومت نے متعدد محکمے صوبوں کے حوالے کئے اور صوبائی حکومت کو بھی اپنے بعض اختیارات بلدیاتی اداروں کو منتقل کرنے تھے‘ عوام کو اس وقت تک جمہوریت کے ثمرات نہیں پہنچ سکتے جب تک اٰختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ ہو۔ توقع ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت اختیارات اور وسائل نچلی سطح پر منتقل کرنے میں بھی پہل کرنے کی اپنی روایت برقرار رکھے گی۔