آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی 53 نشستوں پر مشتمل ہے‘ جن میں سے 45 نشستوں پر براہئ راست انتخابات جبکہ خواتین کے5‘ ٹیکنوکریٹ‘ علما و مشائخ اور بیرونِ ملک کشمیریوں کے لئے ایک ایک نشست مخصوص ہے۔ جن نشستوں پر براہ راست انتخابات ہوتے ہیں ان میں 12 نشستیں پاکستان میں مقیم اُن مہاجرینِ کے لئے مختص ہیں جو قیام پاکستان کے وقت (1947ء) میں ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ اِن میں سے جنرل نشستوں پر رائے دہی کا انتخابی عمل 25 جولائی کو مکمل ہوگا۔ جنرل نشستوں پر آزاد کشمیر سے 33 اور جموں و کشمیر کے مہاجرین پر مشتمل 12 انتخابی حلقے ہیں اُور 32لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ مجموعی طور پر 45 حلقوں (جنرل نشستوں) پر 724 کل اُمیدوار ہیں اِن میں جموں و کشمیر کی 33 نشستوں کے لئے 579 جبکہ مہاجرین پر مشتمل 12حلقوں کے لئے 145 اُمیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ ذہن نشین رہے کہ کشمیری مہاجرین کیلئے مختص 12نشستوں کیلئے انتخابی حلقے پاکستان کے چاروں صوبوں میں اُن علاقوں پر مشتمل ہیں‘ جہاں کشمیری اکثریت سے آباد ہیں۔ قبل ازیں ہوئے انتخابات میں مسلم لیگ نواز نے 31‘ پیپلزپارٹی نے 3 اور تحریک انصاف نے 2 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد نواز لیگ نے باآسانی حکومت بنا لی تھی جنہوں نے راجہ فاروق حیدر کو وزیراعظم منتخب کروایا تھا۔ آزاد کشمیر کی 49رکنی قانون ساز اسمبلی میں 31 جنرل نشستیں‘ 6 مخصوص نشستیں اور ٹیکنوکریٹس کے لئے بھی نشستیں مخصوص ہیں۔ کشمیر کی انتخابی سیاست میں اُس جماعت کو باآسانی اکثریت حاصل ہو جاتی ہے‘ جس کی اسلام آباد میں حکومت ہو۔ جموں و کشمیر کے انتخابات کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ انتخابات مرحلہ وار ہوتے ہیں۔ 33 انتخابی حلقوں کیلئے پہلے مرحلے میں 27 ہزار سے زیادہ سرکاری ملازمین کا اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کا مرحلہ 18 جولائی کو شروع ہوا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق آزاد جموں و کشمیر کے عام انتخابات (دوہزاراکیس) میں 32 لاکھ20 ہزار546 رائے دہندگان نمائندے منتخب کرسکیں گے۔ ان میں سے پاکستان میں مقیم مہاجرین کے حلقوں میں ووٹرز کی تعداد 4لاکھ 3ہزار 456ہے۔ گزشتہ انتخابات (دوہزارسولہ) میں ووٹروں کی کل تعداد 27لاکھ 38ہزار میں سے پاکستان میں مقیم مہاجرین کے ان حلقوں میں ووٹروں کی تعداد 4لاکھ 64ہزار کے لگ بھگ تھی۔ ان میں جموں کے حلقوں میں ووٹروں کی تعداد قریب 4لاکھ 30ہزار جبکہ وادی ئکشمیر کے مہاجرین کے حلقوں میں ووٹروں کی تعداد 30ہزار کے لگ بھگ تھی۔ پاکستان میں مقیم کشمیری مہاجرین کے انتخابی حلقوں کی تقسیم انتہائی پیچیدہ ہے۔ کئی حلقوں میں تین صوبوں کے علاقے شامل کئے گئے ہیں۔ کئی مرتبہ تو یہ بارہ کی بارہ نشستیں کسی ایک سیاسی جماعت کو مل جاتی ہیں بالخصوص جس کی وفاق میں حکومت ہو یا جسے وفاقی حکومت کی حمایت حاصل ہو۔ آزاد جموں و کشمیر اسمبلی اور اس میں موجود یہ نشستیں آزاد جموں کشمیر کے عبوری آئین (ایکٹ 74) کے ذریعے وجود میں آئیں اور ان کو آزاد جموں کشمیر میں ہونے والی قانون سازی میں رائے دہی کا اختیار حاصل ہوا۔ تاکہ یہ واضح کیا جاسکے کہ اس اسمبلی میں بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام کی نمائندگی پاکستان میں مقیم مہاجرین کی صورت موجود رہے اور آزاد حکومت کو ریاست جموں کشمیر کی نمائندہ حکومت کہا جاسکے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جہاں مقبوضہ کشمیر یعنی بھارت کے زیر تسلط علاقے میں آزادی رائے پر قدغن ہے اور وہاں غیر اعلانیہ کرفیونافذ ہے اس کے ساتھ ساتھ بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے ایسے میں آزادی کشمیر میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ آزاد کشمیر میں اپنی الگ قانون ساز اسمبلی صدر، وزیراعظم اور دیگر آئینی عہدوں کی موجودگی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہاں پر عوام کو ان کی امنگوں کے مطابق حکومت تشکیل دینے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کی مکمل آزادی ہے جو نام نہاد بڑی جمہوریت بھارت کے منہ پر طمانچہ ہے جہاں مقبوضہ وادی میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے اور طویل عرصے سے یہاں پر ایک ایسے جیل کا ماحول ہے جہاں پر بظاہر چلتے پھرتے کشمیریوں کو جکڑا گیا ہے۔ ان کو بدترین تشدد اور ذہنی ٹارچر کا سامنا ہے جس پر عالمی اداروں نے بھی تنقید کی ہے اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ بند کرے۔ اسلامی تعاون تنظیم نے بھی اس سلسلے میں بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔