پشاورلیڈی ریڈنگ کاسوئیکارنو چوک خیبربازار والا گیٹ جو سال بھر سے بند پڑاہے۔جس کی وجہ سے مریضوں اوران کے لواحقین کو میڈیسن سٹور تک پہنچنے میں سخت تکلیف ہے جس سے مریض اور ان کے ساتھ آنے والے تیمار دار رُل رہے ہیں۔یہ صوبے کاسب سے بڑاہسپتال ہے۔دن چڑھتے ہی اس کے چاراطراف دروازوں سے مریض اوران کے لواحقین آتے جاتے ہیں۔ علاج معالجہ کرواتے ہیں اور شفایاب ہوکرگھروں کولوٹ جاتے ہیں۔یہ دروازہ سال بھر سے تالا لگاکر جیسے ہمیشہ کیلئے بند کر دیا گیا ہے۔بالفرض مشکل حالات میں بند کردیاگیاتھا تو اب کھول دیا جائے۔کیونکہ اب وہ حالات نہیں۔یہ ضرورت پڑنے پردوبارہ عارضی طور پر بند کیا جا سکتا ہے۔ اس گیٹ کے پاس دو سودکانیں ہیں اور ٹھیلے والے ہتھ ریڑھی تہہ بازای بھی بہت ہے۔مسئلہ تو مریضوں کا ہے۔جو مریض اس گیٹ سے اندر جانا چاہتا ہے اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتاہے۔ وہ دوسرے دروازے سے اندرداخل ہوتا ہے۔جس کو ہاسٹل والا گیٹ کہتے ہیں۔ حالانکہ وہ فرلانگ بھر فاصلہ پر ہے۔مگر چونکہ بیماری آزاری کا مسئلہ ہے۔مریضوں کو دوا دارو کیلئے اس بند گیٹ کی سلاخوں کے پاس آناپڑتا ہے۔وہ آوازدے کرکسی راہ گذرتے سے بھی میڈیسن منگوالیتے ہیں۔بعض مریضوں کے لواحقین ہیبت میں ہاسٹل والے گیٹ کی طرف دوڑتے ہیں تاکہ سڑک کنارے بنی دکانوں سے دوائیاں خرید سکیں۔ مگر ان سخت مایوسی ہوتی ہے۔کیونکہ ہاسٹل والے گیٹ کے باہر کوئی میڈیسن سٹور نہیں۔ ان کو اس دروازے سے نکل کرخیبر بازار والے اس بند گیٹ کے باہر آنا پڑتا ہے جو عرصہ دراز سے بند پڑا ہے۔ پھرجب وہ دوبارہ اپنی وار ڈکی جانب جاتے ہیں تو ان کو وہاں سیکورٹی گارڈ کی طرف سے پریشانی کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ پھر کہیں جاکر اسی بند گیٹ کے ساتھ بنی ہوئی میڈیکل کی وارڈز کی طر ف راہداریوں اور برآمدوں سے گذر کر آناپڑے گا۔ یوں مریض کووقت پر دوا پہنچانا مشکل ہوجاتا ہے۔خاص طور پرخواتین کیلئے یہاں اس گیٹ پر بہت زیادہ تکلیف ہے۔کیونکہ زیادہ تر آنے والی عورتیں گاؤں او رپرگنوں سے آتی ہیں۔ وہ تعلیم یافتہ نہیں ہوتیں۔ وہ اس بندگیٹ کے باہر سلاخوں میں سے جھانک کرریڑھی والوں سے درخواست کرتی ہیں۔پھر وہ ریڑھیوں والے اپنا کام کاج چھوڑ کر سڑک پار دکانوں کے کاؤنٹر پر جا جا کروہ دوا ڈھونڈتے ہیں۔پھر مریض ایک تو نہیں سینکڑوں اگر نہیں تودرجنوں ہیں۔یہاں جو وارڈزہیں ان میں زیادہ تر ڈائیلاسس کے مریض ہیں۔ان کووقت پر نہ ملے اور میڈیسن کا ساز و سامان لانے میں دیر ہو جائے تو یہ لوگ اور پریشان ہو جاتے ہیں۔یہ گیٹ خیبر بازار سٹاپ بی آر ٹی کے سامنے ہے۔یہ دروازہ اگر کھل جائے تو عوام الناس کو بہت زیادہ آسانی میسرآسکتی ہے۔ معلوم نہیں کیوں اس راہ گذر کو بند کردیا۔حالانکہ اس کے پیچھے واقع صرافہ بازار والا ایمرجنسی کے ساتھ جو گیٹ تھا وہ بھی بندش کاشکارہوا۔ مگر عوام کے پریشر پریہ دروازہ بعد میں کھولناپڑا۔ مگر اس گیٹ کو کھولنے میں اگر کوئی مجبوری رکاوٹ ہے تو اس کو کسی نہ کسی طریقے سے دور کیا جا سکتا ہے۔معاشرے میں جتنے شفاخانے ہوں کم ہیں اورجتنی درس گاہیں ہوں نہ ہونے کے برابر ہوں گی۔کیونکہ بیماریاں اور مسائل بہت زیادہ ہیں۔جب سے انسان نے دنیا میں قدم رکھا بیماری آزاری ساتھ ہے۔ کوئی انسان ایسا نہیں ہوگاجو کسی بیماری کو ساتھ لے کر نہ گھومتا ہو۔ جب انسانیت کا حال یہ ہو تو تمام دروازے توکیاکھلے رکھنا شفا خانوں میں اوردروازے بھی نکال دیئے جائیں۔ اس گیٹ کے کھولنے کے کئی وعدے وعید کئے گئے مگر کہاں۔سیاسی وعدے ہوا کارزق بھی بن جاتے ہیں۔ ہونٹوں سے ادا تو ہو جاتے ہیں مگر پورے نہیں ہو پاتے۔پھر دوسری بات یہ کہ کاروبار پر بھی سخت منفی اثرات پڑے ہیں۔ آگے ہی کوروناکی وجہ سے اور غربت کی شرح میں اضافے اور مہنگائی کی وجہ لوگ آٹھ آٹھ آنسو رو رہے ہیں۔اوپر سے اس طرح کاقدم اٹھاناکہ دکانوں کے آگے سے یہ دروازہ بند کردینا مریضوں کے علاوہ باہر کے دکانداروں کیلئے بھی دل میں چھبنے والاکانٹا ساہے۔جو انتہائی تشویش ناک بات بھی ہے اور افسوس ناک بھی ہے۔اگر کسی مریض کو کوئی کھانے پینے کی چیز درکار ہے تو اس کے ساتھ مددگار کے طور پر آئے ہوئے اسکے عزیز کودوسرے دروازوں کی طرف بہت دور تک پیدل چل کر بازار جانا پڑتا ہے۔اس گیٹ کے اندر چند قدم پر جو وارڈ قائم ہیں ان میں مریضوں کے لواحقین کوصرافہ بازار والا گیٹ استعمال کرنا پڑتا ہے جو خاصہ دور پڑتا ہے۔اس بند گیٹ کے باہر ہر قسم کاضروری سامان ملتا ہے۔ دوا سے لے کر کھانے پینے کی چیزیں بھی یہاں دستیاب ہیں۔یہ گیٹ کھل جائے تو عوام الناس کو بہت زیادہ آسانی میسر آ جائے۔ چائے والا بھی یہاں ہے تندوروالا بھی موجود ہے۔جنرل سٹور بھی یہاں ہیں۔یہ ہسپتال تو غریبوں کاہے اور پھر زیادہ تر شہرمیں آنے والے مسافروں کاہے اس لئے یہ مسئلہ جس قدر حل ہوجائے اتنی ہی بہت سے مریضوں اور ان کے ساتھ آئے ہوئے تیمارداروں کی تکالیف میں کمی ہوگی۔