جرم کہانی: خاندانی نظام

بیس جولائی دوہزار اکیس‘ رات 11 بج کر 7 منٹ پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پولیس کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے پیغام جاری ہوا کہ ”اسلام آباد سیکٹر F-7/4 میں خاتون کے قتل کا معاملہ‘قتل کی اِطلاع ملتے ہیں سینئر افسران نے موقع ِواردات پر پہنچ کر تحقیقات شروع کر دیں۔ قتل میں ممکنہ طور پر ملوث ظاہر جعفر نامی شخص کو موقع واردات سے گرفتار کر کے تھانے منتقل کر دیا گیا اُور وقوعے کا مقدمہ درج کیا جا رہا ہے۔“ اِس اطلاع میں جس خاتون کا ذکر کیا گیا اُن کا نام ’محترمہ نور مخدوم‘ ہے اور اُن کے والد شوکت مخدوم ’جنوبی کوریا‘ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔ ابتدائی تفصیلات کے مطابق نور مخدوم ملزم ظاہر جعفر کے ہمراہ تھیں جہاں تیز دھار آلے سے اُن کا گلہ کاٹ کر قتل کیا گیا جبکہ پوسٹمارٹم رپورٹ میں اُن کے جسم پر لگی گولیاں بھی برآمد ہوئیں تاہم یہ معلوم نہ ہو سکا کہ گولیاں پہلے ماری گئیں یا ذبح کرنے کے بعد اُن کے جسم کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔ ملزم نور مخدوم کا دوست تھا‘ جو معروف کاروباری شخصیت ہیں۔ پولیس کو دیئے گئے والد (شوکت مخدوم ولد اسماعیل تاج سکنہ نیول اینکریج‘ سیکٹر ایف سیون‘ اسلام آباد) کے بیان کے مطابق ”19 جولائی کے روز وہ قربانی کے لئے بکرا خریدنے راولپنڈی جبکہ اُن کی بیوی عید کے ملبوسات لینے درزی کے پاس گئے‘ واپسی پر اُن کی بیٹی (مقتولہ نور مخدوم) گھر پر موجود نہیں تھیں‘ اُس کا فون نمبر بھی بند آ رہا تھا۔“ تلاش شروع تھی کہ اِس دوران نور کا ٹیلی فون آیا اُور اُس نے اطلاع دی کہ وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ چند روز کے لئے لاہور جا رہی ہے۔ بیس جولائی کو ملزم ظاہر ولد ذاکر کی جانب سے فون پر والدین کو اطلاع دی گئی کہ نور اُس کے ساتھ نہیں ہے اُور پھر اُسی روز رات 10بجے کوہسار تھانے سے والد کو بیٹی کے قتل بارے مطلع کیا گیا۔ تھانہ کوہسار اسلام آباد نے قتل کے اِس مقدمے کی ابتدائی تفتیشی رپورٹ (FIR) نمبر 8395 بحوالہ 380/21 بتاریخ 20 جولائی 10بجے رات درج کی گئی۔ پولیس نے ملزم ظاہر کے گھر کی تلاشی لی جہاں ہوئے قتل کے آثار و ثبوت مل گئے۔ وزیراعظم عمران خان نے قتل کی اِس واردات کا نوٹس لے رکھا ہے جبکہ والدین چاہتے ہیں کہ اُن کی بیٹی کو قتل کرنے والوں کو عبرت ناک سزا دی جائے لیکن جرم کہانی یہاں پر ختم نہیں ہوتی!نور مقدم کا قتل نہایت تکلیف دہ ہے کیونکہ یہ طبعی موت نہیں۔ تابوت میں رکھی‘ کفن میں لپٹی نور کا سر تن سے جدا اور یہ نتیجہ کسی ناگہانی حادثہ نہیں تھا بلکہ یہ وحشیانہ قتل کا دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔عینی شاہدین نے سوشل میڈیا پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھا کہ رخصت کے موقع پر گھر کے مرد خواتین کو دلاسہ دے رہے ہیں اور پھر نور کی والدہ اپنی بیٹی کے چہرے پر جھک کر کہتی تھیں کہ ”میں نے اللہ کے حوالے کیا‘ میں نے اللہ کے حوالے کیا۔“ یہ وہ الفاظ تھے جو وہ بار بار دہرا رہی تھیں۔اسلام آباد کے نیول اینکریج کے علاقہ کی جامع مسجد میں نور کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور پھر اُنہیں قریبی قبرستان میں سپرد ِخاک کر دیا گیا۔ سوشل میڈیا پر ذرائع ابلاغ سے غمزدہ خاندان کی بات چیت موجود ہے جس میں قبرستان کے داخلی گیٹ کے پاس موجود ایک خاتون نے روتے ہوئے کہا کہ ”ہم سب بہت پریشان ہیں۔ ہمارے بچے محفوظ نہیں۔ ہم کس طرح اپنے بچوں کی حفاظت کریں۔ میرے خیال سے جس طرح نور کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہے یہ قابل معافی نہیں ہے۔ چیف جسٹس کو اِس کا نوٹس لینا چاہئے۔“ اسلام آباد پولیس کے مطابق ”جرم (قتل) ہوا ہے۔ ملزم موقع سے پکڑا گیا ہے۔ وہیں سے آلہ قتل بھی ملا ہے۔ اِس لئے ملزم کو چھوٹ ملنا ممکن نہیں اگر مقتولہ کا خاندان راضی نامہ نہ کر لے۔ ہماری جو بھی تفتیش ہو گی وہ مکمل شواہد کی روشنی میں ہو گی اور ہم اس کو سزا دلوا کر رہیں گے۔“ستائیس سالہ نور مقدم کا قتل بیس جولائی سے سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے‘ جہاں ایک طرف اس کیس سے جڑے معاشرتی پہلوؤں پر بات کی جا رہی ہے وہیں سوشل میڈیا پر یہ بات بھی زیر بحث ہے کہ کیا پاکستانی معاشرہ خواتین کے لئے محفوظ ہے یا نہیں؟ کئی صارفین نے والدین سے گزارش کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کسی بھی صورت رات گھر سے باہر بسر کرنے کی اجازت نہ دیں‘ کیونکہ گھر کی چاردیواری کے باہر خطرات زیادہ ہیں اُور بے شمار حیوان موجود ہیں جو شکار کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔“ یاد رہے کہ نور مقدم قتل کیس میں درج ایف آئی آر کے مطابق نور کے والد نے بتایا کہ ملزم ظاہر جعفر کے والد سے ان کی فیملی کی ذاتی واقفیت ہے یعنی دونوں خاندان ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ اِس پوری صورتحال (جرم کہانی) پر نظر رکھتے ہوئے صرف اسلام آباد ہی نہیں بلکہ دیگر شہروں کے رہنے والے والدین کو بھی اپنے بچوں پر عقاب کی طرح نظر رکھنے اُور اُن کے ’آن لائن و آف لائن‘ معمولات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ خود کو باخبر رکھنے کی ضرورت ہے‘ اِس سلسلے میں بچوں سے بات چیت اور تبادلہئ خیال انتہائی ضروری ہے یقینا اِس موقع پر ملک کے سنجیدہ حلقوں میں ”خاندانی نظام کا شیرازہ بکھرنے کے نقصانات“ بارے سوچ بچار ہو رہا ہوگا اُور اگر نہیں ہو رہا تو پھر ہم میں سے کسی کو ایسے کسی غیراتفاقی و ناگہانی حادثے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔