صفائی کے انتظامات 

بیچاروں نے کوشش تو کی مگر عوام وافر مقدار میں گند ڈالتے رہے۔ ایسے میں گندگی کا پورے طریقے سے اٹھانامشکل تھا۔ٹریکٹروں کے پیچھے بڑے ٹرالے جائن کر کے گلی گلی گھمائے گئے۔ مگر کہاں یہ تو دہائیوں کا فضلہ ہے اتنی جلدی کہاں صاف ہو گا۔جانوروں کی آلائشیں گھروں کے باہر پ ڑی رہیں۔ان کو فون کئے گئے جواب میں کہاگیا آتے ہیں اور آتے ہیں۔وہ آئے بھی اور گئے بھی۔مگر آئے گئے ہو گئے۔گھنٹوں کے انتظار کے بعد آتے۔فرماتے ہمارے پاس عملہ کی کمی ہے۔اس معاملے میں یہ سرکاری پا پیادے بالکل پیدل ہیں۔دنیا بھرکی نگاہیں اس وقت شہرِ پشاور پر لگی ہیں۔ہر طرح سے یہ دنیا جہان کی نظروں میں ہے۔ہم بھی اسی شہر کے باشندے ہیں۔آنکھیں رکھتے ہیں دیکھتے ہیں۔یہاں وہاں سے خبریں بھی کانوں میں پڑتی ہیں۔لکھتے بھی ہیں۔سو ہم سے شکایات بھی کی جاتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اخبار میں لکھو۔ہم لکھنے سے پہلے اپنی سی پرکھ پرچول کرتے ہیں بلکہ خود جاکرموقع دیکھتے ہیں۔سنی سنائی باتوں پر دھیا ن نہیں دیتے۔سو یہ کہنے میں کیا حرج ہے کہ پچھلے سال جب قربانیاں کی گئیں وہ برس صفائی کی کارکردگی کے لحاظ سے بہتر تھا۔ مگر اب کے معاملہ ابتر تھا۔کہیں نالے ابل رہے ہیں۔گٹر کے ڈھکنے ہٹا کراندر سیخیں ماری گئیں۔جس کے بعد اندر سے گند کے شاپر بر آمد ہوئے۔سب مل کر گند ڈالتے ہیں اگر یہ جگہ جگہ گند نہ پھینکیں توگندگی میں اضافہ کیوں ہو۔ یہ شہر کے باسیوں کا غیر ذمہ دار ہونا ظاہر کرتاہے۔اگر کسی سسٹم کے تحت گند ڈالا جائے کوئی ترتیب ہو تو اٹھانے والے سرکاری کارندوں کو بھی آسانی ہو۔ جب بار بار کے فون بجائے گئے۔ آنے والے اپنے صفائی کے بیلچے لے کر نمودارنہ ہوئے تو شہرمیں شہری اپنی مدد آپ کے تحت گائے بکروں کی اوجھڑیاں اور آلائشیں گھسیٹ کر دور دور تک لے گئے۔صفائی کا کام کیا توگیا اس میں تو شک نہیں مگر انتہائی سست رفتاری میں انجام ہوا۔ایک بوڑھا آدمی آیا اور گلی کے باشندہ گان سے گویاہوا۔آپ کی اجازت ہو تو میں یہ اوجھڑی لے جاؤں۔گلی والوں نے شکر ادا کیا چلو صفائی کے عملے کا آدمی ہے۔ اب گند سے جان چھوٹے گی۔ وہ اوجھڑی گھسیٹ کر لے گیا۔گلی کی موڑپر اس نے چاقو سے اس کو کترا اور گند نکال کر وہیں پھینکا اور اوجھڑی لے کر چلتابنا۔صاحب ان کے پاس جدید طرز کی مشینری نہیں ہے ان کے پاس کارکنان کی تعداد کم ہے۔ان کو بھرپوراور پوری صلاحیت سے آراستہ نہیں کیا گیا۔ چھوٹا سا تو شہر ہے مگر اس کے چرچے دنیا بھر میں صفائی کے ناقص انتظامات کے رجسٹرمیں اوپر کر کے لکھ دیئے گئے ہیں۔منڈیاں شہر سے باہر تھیں۔مگر دورات پہلے خاص طور پر شہر کے اندر مال مویشی فروخت ہوئے۔ خوب گند ڈالا گیا۔ اس سال وہ کارکردگی نہ تھی۔ ہر بندہ اپنی مددآپ کے تحت گند گریل ٹھکانے لگا کر آتا رہا۔اس سال وہ چست او رمستعد عملہ نہ تھا۔وہ تیزی جو پچھلے سال انھوں نے دکھلائی تھی اب کے موجود نہ تھی۔پھر اس پر بجلی کانہ ہونا۔لوگوں نے اپنے مویشی انتظار میں رکھے تھے کہ بجلی آئے تو پھر ان کے ذبیحہ کا بندوبست کیا جائے۔عید کے دوسرے دن جوں صبح بجلی گئی تو رات گئے جا کر کہیں بحال ہوئی۔یہ الگ موضوع ہے۔مگراس مضمون کا تعلق گند گی سے اس لئے ہے کہ اس عالم میں جہاں چہار اطراف سے گند کے بھبھکے آتے ہوں تو شہر والے کہاں جائیں۔عملے کوگلیوں میں سے آلائشیں اٹھانے میں تکلف تھا۔ اگرچہ کہ ڈھیروں پر سے سست رفتاری کے ساتھ اٹھاتے رہے۔جیسے ان پر یہ صفائی ایک بوجھ ہو جسے کو وہ نہیں کرناچاہتے ہوں۔عید کادوسرادن چونکہ سسرال ڈے ہوتاہے۔سواس دوران میں شہریوں نے آتے جاتے کوڑے کرکٹ کے وہ ڈھیر دیکھے کہ توبہ توبہ کرناپڑی۔گلیوں میں سڑکوں پر گندی بدبو کا راج ہے۔اس بارتو انھوں نے عوام کوبہت چونا لگایا۔ مگر گند گریل پر چونا نہیں ڈالا گیا۔پھرنہ ہی پرانا انداز تھا۔جیسے اس شہر کو اس کی قسمت کے سہارے چھوڑدیاگیاہو۔اس سال تو عوام کے لئے آگاہی مہم بھی عمل میں نہ لائی گئی۔کسی کو نہ دیکھا کہ سرکاری آدمی ہو اور شہریوں سے اپیل کر رہاہو کہ ازراہِ کرم ہر جگہ گند نہ ڈالیں ایک ہی جگہ گند اکٹھا کریں۔اب کے فون توہوتے وہ اٹھاتے نہ تھے۔ اٹھالیتے تو یہی کہنا کہ آ رہے ہیں۔ صاحبان اس محکمے کو اپ ڈیٹ کرنے کیلئے ان کے افسرا ن کو بہت کام کرناپڑے گا۔ ان کے پاس جدید مشینری توکہیں دیکھی نہ سنی۔وہی رسیاں وہی بوکے۔وہی طرزِصفائی وہی مختصر عملہ۔