افغانستان میں جاری جنگ کا حالیہ دور بیس برس پر محیط داستانوں کا مجموعہ ہے جبکہ یہی عرصہ افغانستان میں قیام امن کے سفر کا بھی ہے جس کے مسافر اور سفیر لہولہان ہیں! بنیادی سوال یہ ہے کہ گزشتہ دو دہائی سے جاری جنگ نے افغانستان کو کتنا بدل دیا ہے اور اِس کا مستقبل کیا ہوگا؟ طالبان تحریک نے اُنیس سو چھیانوے میں افغانستان پر قبضہ کیا اور پانچ برس تک حکمرانی کی لیکن دہشت گرد (المعروف نائن الیون) حملوں کے بعد امریکہ نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان کو اقتدار سے بیدخل کرنے کے بعد سے افغانستان کو حقیقی قیادت نصیب نہیں ہوئی اگرچہ وہاں جمہوری نظام کے تحت انتخابات بھی ہوئے‘ نیا آئین بھی بنایا گیا لیکن تمام تر حربوں اور تمام تر جدید و مہلک ترین ہتھیاروں کے استعمال سے بھی طالبان کو شکست نہ دی جا سکی‘ جو انسانوں کی جنگی تاریخ کا عبرت انگیز باب ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اِس کے کئی حصوں تک رسائی ممکن نہیں جہاں جنگ جاری ہے۔ اِس صورتحال میں تین ذرائع سے معلومات موصول ہو رہی ہیں۔ 1: افغان میڈیا۔ 2: طالبان ذرائع اور 3: افغان حکومت ذرائع جنہیں مغربی ذرائع ابلاغ کی تکنیکی مدد و حمایت حاصل ہے اور افغانستان میں دن کو رات اور رات کو دن ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ طالبان کی پیشرفت تیزی سے جاری ہے جو کم سے کم ایک تہائی اور زیادہ سے زیادہ نصف افغانستان پر کنٹرول رکھتے ہیں لیکن یہ دعویٰ ثابت کرنے یا اِسے رد کرنے کے لئے کسی بھی فریق کے پاس آزاد ذرائع سے تصدیق ہونے والے ثبوت موجود نہیں۔ افغانستان کی بیس سالہ جنگ میں صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی جانی و مالی نقصانات ہوئے جن میں عام شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شامل ہیں تاہم ”مرکزی میدان ِجنگ“ افغانستان ہی ہے جہاں سال 2021ء کے ابتدائی 3 مہینوں میں شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں ’واضح اضافہ‘ ہوا ہے اور اِس بارے میں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ”اس کی وجہ خود ساختہ دھماکہ خیز ڈیوائس (آئی ای ڈی) کا استعمال اور ٹارگٹ کلنگز ہیں جبکہ گذشتہ سال (دوہزاربیس کے دوران) افغانستان میں ہونے والی ہلاکتوں میں سے 43فیصد اموات خواتین اور بچوں کی تھیں۔ برسوں سے جاری افغان جنگ کے باعث لاکھوں کی تعداد میں افغان وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں اور جن میں سے اکثریت نے پاکستان میں پناہ لے رکھی ہے جبکہ افغانوں کی بڑی اکثریت اپنے ہی ملک میں مہاجرت یعنی غربت و افلاس کی زندگی بسر کر رہی ہے! سال دوہزار بیس میں چار لاکھ سے زیادہ لوگ افغانستان میں جاری جھڑپوں کے نتیجے میں اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ دوہزاربارہ سے لے کر اب تک پچاس لاکھ سے زیادہ افغانی بے گھر ہوئے ہیں یعنی وہ حالات معمول پر آنے کے بعد بھی اپنے آبائی علاقوں کو دوبارہ جانے کو ترجیح نہیں دیں گے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق ”دنیا بھر میں بے گھر ہونے والوں میں تیسری سب سے بڑی تعداد افغانستان سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے۔“ کورونا وبا کے باعث افغانستان کے قومی وسائل پر بوجھ مزید بڑھا ہے اور ملک بھر میں لاک ڈاؤن لگائے جانے کے بعد افغانیوں کیلئے ذرائع معاش تک رسائی بھی مشکل ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی امور کے ادارے کے مطابق ”افغانستان کی تیس فیصد آبادی غذائی قلت جیسے بحران کا سامنا کر رہی ہے۔“ یونیسف کے مطابق سینتیس لاکھ افغان بچے سکول نہیں جاتے اور اس میں سے ساٹھ فیصد لڑکیاں ہیں اور اس کی وجہ ملک میں جاری لڑائی اور خواتین اساتذہ کی اور وسائل کی کمی ہے۔افغانستان کا آئین کہتا ہے کہ ملک کے قانون ساز ایوان ِزیریں میں کم از کم ستائیس فیصد خواتین اراکین ہونی چاہیئں جس کے تحت پارلیمان کی 249 میں سے 69فیصد نشستیں خواتین کی بنتی ہیں لیکن خواتین کو خاطرخواہ نمائندگی نہ تو قانون ساز ایوانوں میں حاصل ہے اور نہ ہی مستقبل میں اِس بات کا امکان موجود ہے کہ خواتین قومی فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کی جائیں گی۔ کسی بھی نئی افغان حکومت کیلئے اقتدار کانٹوں کا تاج ہوگا کیونکہ افغانستان میں مسائل نہیں بلکہ بحران منتظر ہیں۔ افغانستان دنیا بھر میں پوست کی پیداوار کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے اور برطانوی حکام کے مطابق برطانیہ میں پہنچنے والی پچانوے فیصد ہیروئن افغانستان سے آتی ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں پوست کی کاشت میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے اور ملک کے 34 میں سے صرف 12صوبے ایسے ہیں جہاں پوست کی کاشت نہیں ہوتی۔ مغربی ممالک کی جانب سے افغان کاشتکاروں کو مراعات‘ مالی امداد اور دیگر فصلات کیلئے بیج و کھاد (ترغیب) دی جاتی ہے کہ وہ پوست کی فصل چھوڑ کر دیگر فصلوں پر توجہ دیں لیکن یہ کوششیں کامیاب نہیں ہو رہیں۔ قابل ذکر ہے کہ طالبان نے اپنے دور ِحکومت کے آخری سال میں پوست کی کاشت پر پابندی عائد کی تھی اور اِس پابندی پر سختی سے عمل درآمد ہوا تھا یقینا امریکہ اور مغربی ممالک بیس برس قبل طالبان کو اقتدار سے بیدخل کرنے کے عمل پر پچھتا رہے ہوں گے کیونکہ اگر طالبان کے اقتدار کا تسلسل رہتا تو آج (بیس برس) بعد کا افغانستان یقینا انسانی حقوق اور خواتین کی قومی فیصلہ سازی میں شراکت داری کے علاوہ لاکھوں افغان مہاجرین کیلئے ایک بالکل مختلف وطن کی صورت خطے کے سبھی ممالک کے لئے باعث اطمینان و امن و امان ہوتا۔ غلطیاں بہرحال انسانوں سے سرزد ہوتی ہیں لیکن تاریخ میں اپنی غلطیوں سے سبق نہ سیکھنے والوں کو سنگدلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔یعنی اس وقت افغانستان میں جو صورتحال بنی ہوئی ہے اس سے جہاں خدشات جنم لے رہے ہیں اور خطے میں فکرمندی کے آثار نظر آنے لگے ہیں وہاں مثبت اشارے بھی مل سکتے ہیں اور امید بھی پیدا ہو سکتی ہے کہ افغانستان میں طویل خانہ جنگی کے بعد امن قائم ہو اور فریقین باہمی مفاہمت سے ایک ایسی حکومت تشکیل دیں جو یہاں پر امن قائم کرنے میں کامیاب ہو اور اس کے اثرات نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے پر مرتب ہوں اس وقت طالبان اگرچہ پورے افغانستان پر قبضے کے لئے بظاہر کوشش نہیں کر رہے بلکہ ان کی کوشش ہے کہ حکومت پر دباؤ بڑھائیں اور مذاکرات کی میز پر اپنے مطالبات کو منوانے کی طاقت حاصل کریں اور دیکھا جائے تو ان کی یہ پالیسی ماضی کے مقابلے میں مختلف ہے اور ایک طرح سے وہ دنیا کو یہ اشاریہ دے رہے ہیں کہ وہ اعتدال کی طرف آئیں ہیں اب دنیا ان کے ساتھ مفاہمت کا رویہ اپنائے اور جس طرح برطانیہ نے مستقبل کی طالبان حکومت کے ساتھ معاملات چلانے کے امکانات ظاہر کئے ہیں اس طرح دیگر ممالک بھی اس پالیسی کے بارے میں سوچ سکتے ہیں اور یہ افغانستان میں امن کی طرف اہم پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے جس کے ثمرات پورے خطے اور خاص کر پاکستان کے لئے سمیٹنے کا موقع ہے تاہم اب بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے۔