گوشت خوری ۔۔۔۔

ان دنوں تو عید کے گوشت نے ہر گھر میں اپنی سی بہار دکھلائی ہے۔کہیں کسی گھر میں گوشت ختم ہوگیا ہے۔فرج خالی ہوگئے۔پھر کہیں گوشت کوفرج میں سٹور کرکے رکھ دیا گیا۔تھوڑا تھوڑا نکال کر ہنڈیا چڑھائی جاتی ہے۔جو بیتاب تھے انھوں نے سیخوں پر چڑھا کر یہ سٹاک ختم کردیا۔ کیونکہ کھانا ہو اور وہ بھی گوشت کی صورت میں ہو تو صبر کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔مگر گوشت خوری ہو پُر خوری نہ ہو۔کیونکہ بڑی عید کے دنوں میں زیادہ کھا جانے سے بندے ہسپتالوں میں پہنچ گئے ہیں۔جو صحت مند ہیں ان میں سے بھی بعض نظام ہاضمہ کے بگڑ جانے سے ڈاکٹروں کے کلینک کی رونق بڑھا رہے ہیں۔پھر کچھ ہسپتال کے وجود کو جواز دینے کی خاطر بھی اپنے معدوں کو خراب کررہے ہیں۔جو ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہیں ان کو بھی تو دھیرج رکھنا گراں ہوا جاتا ہے۔ان کا قول ہے آج کھا لو کل دیکھا جائے گا۔ اس قسم کے لوگ انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ سے اپنے دانتوں کے ساتھ خود اپنے لئے گڑھے کھود لیتے ہیں۔آدمی میں ایک گیج لگا ہوتاہے۔جس کی باریک تاریں اس کے دماغ میں موجودہوتی ہیں۔ان کوکھاتے ہوئے الارم بج کر یاد دلاتا ہے کہ بھائی جان بس کر دیں اب اور نہیں۔۔سمجھدار انسان کھانے سے پہلے اپنے حصے کی ایک روٹی ہو یا دو ہوں اپنے ذہن میں رکھ کر کھاتا ہے۔جب بھوک لگتی ہے توکھاتا ہے اور بھوک تھوڑی باقی ہو تو کھانا چھوڑ دیتا ہے۔مگر ہمارے پیاروں میں سے بعض حضرات یہ کام کرنے کے روادار نہیں۔اس کو جرم سمجھتے ہیں کہ انھیں کھانے سے روکا جائے۔بسیار خوری اور پُر خوری خواہ کوئی چیز بھی کھائیں درست نہیں۔پھر ان دنوں تو گوشت خوری کی صورتِ حال بگڑی ہوئی ہے۔اکثر نوجوان تو کسی حد اور حساب کے قائل نہیں۔سیخوں پر تکے چیخ رہے ہیں کہ بس ہے یار اپنی جان کے دشمن مت بنو۔مگر ان کو یہ آواز سنائی نہیں دیتی۔کھاتے ہیں اورٹھیک ٹھاک کھاتے ہیں۔لیکن اس میں ایک سوال یہ ہے کہ اگر آ پ نے اچھا کھانا اور زیادہ کھانا اپنے معدے میں پہنچانا ہے۔ پھر قسم قسم کی ڈشیں اور پکوان زیرِاستعمال لاتے ہیں۔ مگر اس کی تصویریں فیس بک پر کیوں دیتے ہیں۔ پھر کچھ ایسی پبلک بھی ہے جو عام دنوں میں تو چھوڑ سال بھر گوشت کوہاتھ نہیں لگاتے۔ وہ تو عید کے دنوں میں بھی گوشت کی نعمت سے اکثر نہیں توکچھ محروم رہتے ہیں۔ان کے پاس گوشت تو پہنچ جاتاہے۔مگر وہ اس قسم کی عیش والی خوراک کھانے کے قابل نہیں ہوتے۔ان پربھی تو ایک تاثر پڑتا ہے پھر وہ تاثر محرومی کا ہے۔۔گوشت کی ہانڈی چولھے پر دھری ہے۔جو سمجھ دار ہیں وہ سونے کی مرغی کی مثال کو ذہن میں رکھتے ہیں۔ایک ہی بار سونے کے انڈے نکال کرکھانا نہیں چاہتے۔آہستہ آہستہ اور روز نکال نکال کر گوشت کی ڈشیں تیار کرکے تناول فرماتے ہیں۔جو بے صبرے ہیں وہ سارے کاسارا گوشت بار بی کیو کر کے بار بار دوپہر شام حکیم کی دوا کی طرح کھا رہے ہیں۔جو صحت کیلئے از حد غیر مفید ہے۔ پھر دل چاہتا ہے کہ گوشت کے ہوتے ہوئے آج دال مسورپکائی جائے۔ پھروہی دال جوعام دنوں میں قابلِ توجہ نہیں ہوتی اس کومزے لے لے کر ساتھ سبز مرچیں تل کر چٹخارے کے ساتھ نوشِ جاں کیاجاتا ہے۔پھر ہمارے ہاں کچھ گھرانے ایسے ہیں جہاں قربانی کر کے بھی گوشت نہیں کھاتے۔بچے بڑی عید کے دنوں میں بھی دال چاول مانگتے ہیں۔کیونکہ صاحبِ حیثیت ہو کربھی بچوں کو بچپن سے گوشت سے ایک قسم کی الرجی محسوس ہوتی ہے۔ایسے گھرانوں میں باہر سے رشتہ دار بھی گوشت کی ڈھیریاں بھیجتے ہیں۔یہ لوگ خود تو نہیں کھاتے۔ مگر ان کے قریبی رشتہ داروں کے مزے ہو جاتے ہیں۔ یہ گھرانہ ان کو بلا کران کوگوشت کے تھیلے بھر بھر کردیتے ہیں۔