افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد جو نئی صورتحال سامنے آئی ہے اس میں ایران اور طالبان دونوں کو احساس ہو گیا ہے کہ اپنی ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا کر احترام، اعتماد اور مفاہمت کی بنیاد پر خوشگوار تعلقات قائم کریں۔ دونوں ماضی کی کدورتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حقیقت پسندی اور اعتدال پسندی کی طرف آگئے ہیں ماضی میں دونوں کے تعلقات قابل رشک نہیں رہے۔ایران کو خدشہ ہے افغانستان میں افغان گروہوں کے درمیان مفاہمت نہ ہوسکی اور وہاں خانہ جنگی شروع ہوئی تو ایران کی طرف مہاجرین کا سیلاب آئے گا۔ اس لئے ایک طرف چنانچہ یہ طالبان سے تعلقات بہتر بنانے اور دوسری طرف افغان مصالحت کیلئے کوششیں کررہا ہے۔ تاکہ ان دونوں منفی اثرات سے خود کوبچا سکے۔ایران افغان تصفیہ کیلئے جو دوڑ دھوپ کررہا ہے پاکستان،چین اور روس بھی اس کے حامی ہیں۔ تہران میں 9 جولائی کو ہونے والے بین الافغان مذاکرات کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں فریقین نے اتفاق کیا کہ افغان مسئلے کا حل جنگ نہیں بلکہ مذاکرات ہیں، پرامن سیاسی حل کیلئے مذاکرات جاری رہیں گے۔ایران نے چا پانچ سال قبل افغان فریقین کے مذاکرات شروع کرنے کی کوشش کی تھی جس کیلئے افغان حکومت نے درخواست کی تھی۔ پھر جب امریکہ طالبان معاہدہ کے بعد افغانستان سے نکلنے کا اعلان کیا تو افغان گروہوں اور طالبان کے مذاکرات کی راہ ہموار ہو گئی۔ تب ایران نے افغانستان میں قیام امن کیلئے قومی حکومت کی تشکیل کا منصوبہ پیش کر دیا تھا لیکن امریکہ نے بین الافغان مذاکرات اور تصفیہ سے قبل طالبان سے براہ راست مذاکرات و معاہدہ کرکے اور بین الافغان مذاکرات سے پہلوتہی کرکے معاملہ خراب کردیا ایران اور افغانستان کے مابین 945 کلومیٹر سرحد ہے۔ ایران میں لاکھوں افغان مہاجرین قیام پذیر ہیں۔ اب ایران کی سرحد پر واقع کئی افغان اضلاع اور اہم گزرگاہوں پر طالبان کا قبضہ ہوگیا ہے۔ چین اور ایران دونوں امریکہ کے خلاف مشترکہ نفرت اور باہمی مفاد کیلئے ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں۔ برسوں سے عائد امریکی پابندیوں نے ایران کو چین اور روس کی طرف دھکیل دیا ہے۔چین نے ایران کے ساتھ اگلے پچیس برسوں میں چارسو ارب ڈالرز کے منصوبے شروع کرنے کا معاہدہ بھی کیا۔ان حقائق کے پیش نظر طالبان اور ایران کے باہمی تعلقات امکان ہے کہ خوشگوار رہیں گے۔ جو خطے میں قیام امن کے حوالے سے اہم پیش رفت ہے۔