سمندر پار کا غم۔۔۔۔۔

یہ زما نہ وبا کا زما نہ ہے وبا کے خلاف ویکسین کا زمانہ ہے ملک کے اندر بسنے والے ارام سے ہیں تا ہم سمندر پا رمزدوری اور روز گار کیلئے جانے والے پا کستانیوں کا غم ہم سے برداشت نہیں ہوتا، پا کستان سے یو رپ، امریکہ، جا پا ن، چین اور روس تک سفر کر نے والے شہریوں سے ویکسین ”سینو فام“ کے سر ٹیفیکیٹ کو قبول کیا جا تا ہے  دوسری طرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمران چینی ویکسین کو قبول نہیں کر تے حالانکہ عالمی ادارہ صحت (WHO) نے چینی ویکسین کو منظور کیا ہے۔بڑی محنت سے ہماری حکومت نے اپنی ویکسین ”پا ک ویک“ تیا ر ی کر لی ہے مگر عرب ممالک کو وہ بھی منظورنہیں اس وقت 3 لا کھ پا کستا نی ایسے ہیں جو عرب ممالک سے چھٹی پر آئے ہوئے تھے واپسی سے پہلے انہوں نے چینی ویکسین کے دونوں ڈوز (Dose) لگا ئے تھے لیکن اپنے کا م پر جا نے سے محروم ہیں اوراُن کا روز گار چھن جا نے کا خوف پیدا ہو گیا ہے اگر جلدی کچھ نہی کیا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب ہمارے سمندر پا ر پا کستانیوں کی بڑی تعداد روز گار سے محروم ہو چکی ہو گی دیر، سوات، چترال، کر ک، وزیر ستان اور ہزارہ سے تعلق رکھنے والے لا کھوں پاکستانی اس کشمکش اور خو ف میں مبتلا ہیں حکومت اعلا ن کر تی ہے کہ ہم سمندر پا ر پا کستا نیوں کو ووٹ کا حق دینگے وہ لو گ مطا لبہ کرتے ہیں کہ ووٹ کی اہمیت اپنی جگہ مگر فی الحال ہمیں واپس اپنے باعزت روز گار پر جا نے میں مدد د یں۔ سعو دی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمرا نوں کو سفارتی ذرائع آمادہ کریں اور چینی ویکسین کو منظور کرائیں۔ اس وقت پا کستان کے ہسپتا لوں اور ویکسی نیشن کے مر اکز میں چین کی ویکسین دستیاب ہے پا کستا نی ویکسین بھی بعض مرا کز میں فرا ہم کی جا رہی ہے موڈرنا اور اسٹرا زینیکا بھی دستیاب ہیں اور ان کی نئی خواراکیں بھی آگئی ہیں تاہم یہ ضرورت کے مطابق نہیں ہیں۔ اس طرح فا ئز ر با یو ٹیک پا کستا ن میں خا ص خا ص جگہوں پر دستیاب ہے پچھلے ما ہ ملا کنڈ ڈویژن کے شہریوں سے کہا گیا کہ سیدو شریف جا کر مذکورہ ویکسین کے ڈوز لگائیں چترال، دیر، با جوڑ اور دوسری جگہوں سے 300 شہری سیدو شریف پہنچے تو بتا یا گیا کہ ویکسین ختم ہوگئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ویکسین کی فراہمی کے مسائل صرف پاکستان میں نہیں بلکہ اور بھی بہت سے ممالک میں درپیش ہیں کیونکہ وباء سے متاثرہ افراد کی تعداد ویکسین کی پیداوار کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے تاہم پھر بھی جن کو ہنگامی بنیادوں پر ضرورت ہوتو ان کو ویکسین کی فراہمی یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے۔ اس طرح دونوں سمتوں میں قدم بڑھائے جائیں، ایک طرف اسٹرازینیکا اور موڈرنا ویکسین کی فراہمی کو مطلوبہ مقدار میں یقینی بنایا جائے تو دوسری طرف جن ممالک میں چند مخصوص قسم کی ویکسین ہی قابل قبول ہے تو ان کو بین الاقوامی قواعد کے مطابق تمام ان ویکسین کے قبول کرنے پر آمادہ کیا جائے جن کی عالمی ادارہ صحت نے منظوری دی ہے۔ چین، روس اور دیگر باثر ممالک پر بھی اس حوالے سے ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان ممالک پر سفارتی دباؤڈالیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کے ان ممالک کیساتھ جس طرح کے اقتصادی تعلقات ہیں وہ ہر طرح سے ان ممالک پر گہرا اثر رکھتا ہے اور اس کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی منظور شدہ ویکسین ہر ملک میں قابل قبول ہو۔