ہم نے ابھی سیکھنا ہے۔۔۔۔

نشہ کوئی بھی ہو تھوڑی دیر کو ہوتاہے۔ یہ عارضی کیفیت ایک عادی انسان کو بہت لطف و سرور دیتی ہے۔ہر چند کہ صحت اور دل و ماغ کیلئے بہتر نہ ہو۔جب نشہ ٹوٹتا ہے تو بدن ٹوٹتا ہے۔اچھا نہیں لگتا۔ اس لئے کہ بندہ واپس اسی کیفیت میں جانا چاہتا ہے۔جوانی کی بات کر رہاہوں۔ جوانی بھی تو ایک نشہ ہے۔جب نہیں رہتی تو بدن ٹوٹتا ہے اور خوب ٹوٹتا ہے۔گھٹنے درد کرتے ہیں۔ وجود میں ہمہ وقت درد کااحساس رہتا ہے۔ گولیوں کے سہارے زندگی کی گذران ہوتی ہے۔ پھر اس وقت جوانی یادآتی ہے۔خواہ برا کیوں نہ کیا ہو۔پشیمانی ہاتھ آتی ہے۔مگر جوانی لوٹ کر نہیں آتی۔جوانی میں کچھ سمجھ نہیں آتا۔ کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا۔سیلابی طبیعت ہوتی ہے۔کسی کی نصیحت کانوں کو لگتی ہے دل کونہیں لگتی۔جو جی میں آیا کیا ہر چند برا ہو۔ جوانی میں بندہ کو یہی احساس ہوتا ہے کہ ابھی تو بہت لمبی زندگی پڑی ہے۔یہی احساس اس کے لاشعور کی تہوں میں پرپیچ طریقے سے گھر کر چکا ہوتا ہے۔ وہ چاہ کر بھی اس احساس کی نفسیاتی بھول بھلیوں سے نکل نہیں پاتا۔ ہرعمل کے پسِ پردہ اور بیک گراؤنڈ میں یہی احساس ِ برتری کارفرما رہتا ہے۔ جوانیاں اور الہڑجوانیاں قابو میں نہیں آتیں۔ ایک سرپٹ دوڑتا ہواگھوڑا۔ جس کی باگیں نہ ہوں نہ تو اس کی کمر پر بیٹھے کو زین بھی نہ ہو۔ جس طرف چلا گیا چلا گیا۔ بعض نوجوان تو ماں باپ کے اچھے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔ان کاماحول اور تربیت ان کے خون میں رچی بسی ہوتی ہے۔ والدین اگر ساتھ نہ بھی ہوں تو ان کا پورا گھر ہمیشہ ان کے ساتھ رہتا ہے۔خواہ وہ شہر کی تنگ و تاریک گلی ہی میں کیوں نہ جارہے ہوں۔وہ جب بولتے ہیں تو ان کا گھر ان کیساتھ بولتا ہے۔مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں اس شہرِ ناپرساں میں جوانیاں قابو سے باہر ہوئی جاتی ہیں۔ آوارہ گردیاں ہیں۔شہر کاماحول ان آوارہ گردانِ شہر کے ہاتھوں مسمار ہو چکاہے۔ دن چڑھتے ہی انکی بدتہذیبی کی حرکات شروع ہوتی ہیں تو جاکر کہیں رات گئے اختتام پذیر ہوتی ہیں۔ رات بارہ بجے جی ٹی روڈ پر سے گذر ہوا وہاں ایک پارک کے باہربہت زیادہ رش تھا۔ عید کے دنوں میں کچھ زیادہ ہی لوگ تفریح کے نام افراتفری مچانے کوگھروں سے نکلے ہوئے تھے۔ جو خواتین اپنے گھرکے مردوں کے ساتھ بھی تھیں ان کو بھی نوجوان جو تین تین کی تعداد میں بائیک پر سوار تھے چھیڑنے میں مصروف تھے۔ ناحق کے چکر کاٹنا۔ ان رکشوں کے گرد ا گرد پھرنا جن میں کوئی فیملی سوار ہو۔ پھر ایک تو نہیں درجنوں موٹر سائیکل سوار۔ ”کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا۔ میں نے کہا تو کون ہے اس نے کہا آوارگی“۔ بس اب تو ہمیں بدل جانا چاہئے، اپنی ذات سے نکل کر دوسروں کی زندگی اور ان کے حقوق کو ہم کب قبول کریں گے، یہ ہم کب جان جائیں گے کہ ہر کسی کو سیر و تفریح کا حق ہے ہر کسی کا عزت نفس ہے اور ہر کوئی اتنا ہی اہم ہے جس قد ر ہم اپنے آپ کوسمجھتے ہیں۔قانون کے پابند معاشروں میں ہاتھ دست درازی اور چھیڑ چھاڑ تو دور کی بات، کسی کوبلا وجہ گُھورنے پر بھی کسی کو قانون کے دسترس میں لایا جا سکتا ہے۔ہمیں ا ب یہ تاثر ختم کرنا چاہئے کہ ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کو ہراسان کرنے کی روش زروں پر ہے اس سے ہماری کس قدر بدنامی ہوتی ہے اورجب کسی کا امیج خراب ہوجائے تو بعد میں وہی آدمی سونے چاندی سے بنا ہوا چہرہ بھی لے کر آئے تو خلقِ عام اس پر اعتماد نہیں کرتی۔ یہ اعتباریا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ یہ کہنا کہ تم کو مجھ پرکتنااعتبار ہے۔یہ کوئی بات نہیں۔اعتبار کا پیمانہ نہیں ہوتا۔ یہ اپنی مکمل شکل میں ہر وقت موجود رہتا ہے۔ اسلئے لوگ اپنی حفاظت کاسامان خود کرتے ہیں۔۔مگر وہی بات کہ لندن میں توایسا نہیں ہوتا۔ وہاں تو کسی کے پاس سے چھری نکل آئے تو اس کو قید کی سزا ہو جاتی ہے۔ پھریہاں توہر قسم کا اسلحہ پسلی کے پاس رکھا ہوتا ہے۔یہاں تو ہمارے بھائیوں نے جیب میں چاقو رکھے ہوتے ہیں۔ جس پرکسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ تو ہوتا ہی ہے۔پھر زیادہ تر نے اس کیساتھ گنا چھیل لیا کہیں اس سے سیب کاٹ لیا۔ پھر موقع آیا تو لڑائی میں کسی کے پیٹ میں مار دیا یعنی اس وقت ہمیں  ایک ایسی معاشرتی تبدیلی کا سامنا ہے جس میں رویے ایک دوسرے سے متصادم ہیں اور اس صورتحال سے نکلنے کے لئے دانشمندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔