خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان نے ’کم سے کم‘ ماہانہ اُجرت 21 ہزار روپے بنتا ہے پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لئے تمام سرکاری محکموں کے انتظامی نگرانوں (سیکٹریز) کو واضح احکامات جاری کئے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ مالی سال 2017-18ء کا وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کم سے کم تنخواہ چودہ ہزار سے بڑھا کر پندرہ ہزار کر دی تھی جس کے بعد سے ہر سال اِس میں اضافہ ہو رہا ہے اور صوبائی حکومتیں کم سے کم تنخواہ مقرر کرنے کے معاملے میں وفاق سے آگے نکل گئی ہیں! حال ہی میں بلوچستان میں کم سے کم ماہانہ تنخواہ ساڑھے17ہزار پنجاب میں 20 ہزار‘ خیبرپختونخوا میں 21 ہزار جبکہ سندھ میں 25 ہزار روپے مقرر کی اور سیاسی فیصلہ ساز ہر سال فراخدلی سے اِس میں اضافہ کرتے ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے اِس حکم سے نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کو زیادہ خوش نہیں ہونا چاہئے کیونکہ صوبائی سربراہ کی جانب سے یہ حکم صرف سرکاری محکموں کیلئے کہ وہاں کام کرنے والے کسی بھی ملازم کو کم سے کم ماہانہ تنخواہ اکیس ہزار روپے ملنی چاہئے۔ صوبائی فیصلہ سازوں کو نجی اداروں کے ان ملازمین پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہئے جن کو اکیس ہزار روپے کے نصف سے بھی کم تنخواہ ملتی ہے بصورت ِدیگر حکومت جو کم سے کم تنخواہ کی شرح مقرر کرے گی اُس پر صرف حکومتی ادارے ہی عمل درآمد کریں گے اور اِس کے ثمرات نجی اداروں کے ملازمین کو منتقل نہیں ہوں گے۔ حکومت کی جانب سے کم سے کم ماہانہ تنخواہوں کا تعین کرتے ہوئے مہنگائی کی شرح کو مدنظر رکھا جاتا ہے لیکن اِس حقیقت کو فراموش کر د یا جاتا ہے کہ مستقل و غیرمستقل سرکاری اہلکاروں سے زیادہ بڑا ’ملازمت پیشہ طبقہ‘ نجی اداروں سے وابستہ ہے۔ اگرچہ خیبرپختونخوا حکومت ہر سال کم سے کم تنخواہ کا اعلان کرتی ہے لیکن کچھ نجی اداروں میں ایسے ملازمین مل جائیں گے جن کی تنخواہیں اِس مقررہ شرح کم ہوتی ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ بہت سے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کم سے کم اُجرت کا قانون موجود ہے‘ جس کے مطابق 8 گھنٹے یومیہ کے حساب سے ملازمین کی تنخواہیں مقرر کی جاتی ہیں لیکن مزدوروں کے حقوق سے متعلق دیگر قوانین و قواعد کی طرح اِس کی خلاف ورزی بھی عام ہے۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں قوانین و قواعد‘ خوبصورت انداز بیاں کے ساتھ کاغذوں پر محدود ملتے ہیں جبکہ اِن پر خاطرخواہ عمل درآمد نہیں ہوتا۔ پاکستان میں نجی ادارے تین قسم کے ہیں ایک وہ جن کی ملکیت پاکستانیوں کے پاس ہوتی ہے اور دوسرے وہ جن میں پاکستانی سرمایہ کار شریک تو ہوتے ہیں لیکن یہ کثیر ملکی (ملٹی نیشنل) کمپنیاں ہوتی ہیں اور تیسری قسم کی ادارے اپنی انتظامیہ اور معاملات میں مکمل غیرملکی ہوتے ہیں۔۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اگر ’کم سے کم اُجرت‘ کے معاملے پر (خوش قسمتی سے) متوجہ ہو ہی گئے ہیں تو اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہے کیونکہ مزدوروں کے حقوق خاطرخواہ ادا نہ کرکے پاکستان کی عالمی سطح پر ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے۔ جس کی طرف توجہ دینے کی فوری ضرورت ہے۔