ایسی گرمی دیکھی نہ سنی ۔۔۔۔

بھلا اے سی لگا ہو اور اندر کمرے میں بندہ پسینے سے نہا جائے۔باہر پاؤں رکھے اور دو منٹ ہاتھ پیر ہلائے بغیر کھڑا ہوکر سر ہلائے یہاں وہاں دیکھے تو پسینہ کمر تک پہنچ جائے۔ توبہ ایسی گرمی توپہلے کبھی دیکھی نہ سنی۔ پھر جون کو تپش کے لحاظ سے دردناک سمجھتے تھے۔جون گذرا تو شکر کیا کہ اب موسم سردی کے زون میں داخل ہوا ہے۔مگر جولائی نے وہ تیر اندازی کی کہ جسم چھلنی چھلنی ہونے لگا۔ایسے کہ ہر بدن سے پسینوں کی آبشاریں بہہ نکلیں۔ دو قدم لو تو ہانپ جاؤ سینے میں سانس نہ آئے کہ حبس کاعالم ہے۔رات کو سورج حسین چہروں سے شرمندہ ہو کر جو غروب ہو جائے تو اس وقت بھی بچت کے آثار نہ ہوں۔دم گھٹنے کی سی کیفیت ہو۔اب ہر گھر میں روم کولر بھی تونہیں اور نہ ہی ایئر کنڈیشنر کی ٹھنڈی ہوائیں ہیں۔ لیکن اگرہوں بھی تو اس موسم کی سختی اورکڑیل جسم کے آگے ہمارے کمزور بدن کیا مقابلہ کریں گے۔ جو پسینوں سے پہلے ہی پلپلے ہو جائیں اور جیتے جی گلنے سڑنے لگ جائیں۔بارشوں کا سنتے آئے ہیں۔ بیس دن ہوئے موبائل کے نیٹ کو ٹٹولتے ہیں کہ کوئی اچھی صدا آئے کہ بارش ہوگی۔  ”کب جان لہو ہوگی کب اشک گہر ہوگا۔ کس دن تیری شنوائی اے دیدہ ئ تر ہوگی“۔اب تو نہ بادلوں کا شور ہے اور نہ ہی مینہ کے قطرے ہیں۔پیچھے کہیں ایک آدھ دن ابرِ باراں کھل کر برساتھا۔ پھرکہیں ایک آدھ روز پھوار کی سی کیفیت رہی۔مگرتاحال کہ اس وقت رقصِ قلم جاری ہے۔بادلوں نے شہر کو دو دنوں سے اپنی محبت میں گھیر رکھا ہے۔مگر دیکھیں کب یہ گرجیں اور گرج جائیں تو پھر برس بھی جائیں۔ پورے ایشیا اور یورپ کو تو جیسے بادلوں نے اس بار دھو کر رکھ دیا ہے۔گاڑیوں کی لمبی قطاریں شہر کی سڑکوں پر بہتے ہوئے پانی میں سانپ کی صورت قطار اندر قطار رینگ کر آگے جا رہی ہیں۔ جن میں کوئی ڈرائیور موجود نہیں۔پنڈی میں بھی کل موسلا دھار بارش ہوئی۔ مگر یہاں بادلوں کی مہربانی کیلئے آنکھیں ترس رہی ہیں اور دل دھڑک رہے ہیں۔سنا ہے کہ پشاور مون سون کی پٹی میں شامل ہی نہیں ہے۔اس بات کو تقویت اس لئے ملتی ہے کہ دنیا بھر میں اور ملک کے ہرحصے میں بارشوں کاراج ہے مگر پشاور اس نعمت سے تاحال محروم ہے۔حال یہ ہے کہ ہوا کے گھوڑے پر بھی سوار ہو کر ان بادلوں کی چھت تلے گھومیں پھریں مگر آپ کو پھر بھی ماتھے پر پسینے آ رہے ہوں گے۔ جب یہ حال ہو تو لوہے کو گھوڑے کو روک کر دیکھیں الٹا میں کہتا ہوں کہ پسینہ تو بہے گا مگر آکسیجن کا ماسک پہننے کی ضرورت پیش آئے گی۔کیونکہ ہوا میں وہ حبس ہے وہ خُپ ہے کہ گریبان پھاڑ کر دوڑپڑنے کو جی کرتا ہے۔مگر جائیں گے کہاں۔قریب کوئی جنگل بھی نہیں نہ کوئی ویرانہ ہے۔پاگل کے پاگل ہونے کے لئے بھی کچھ اصول وضع ہیں۔”گریباں پھاڑتا ہے تنگ جب دیوانہ آتا ہے“۔ یا پھر ”قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو۔ خوب گذرے گی جو مل بیٹھے گے دیوانے دو“ مجنوں کا اصل نام قیس تھا۔ پھر عربی میں مجنوں دیوانے کو کہتے ہیں۔پرانے زمانے میں شہر کے قریب جنگل بھی ہوتا تھا۔مگر اب تو شہرو الوں نے درختوں کو کاٹ کاٹ کر ماحول کو گنجا کر دیا ہے۔مون سون کی شجر کاری کی مہم چلائی جا رہی ہے۔جنگلات اگانے پر زور دیا جارہا ہے۔اب دیوانے کوپاگل ہوجانے کے بعدجنگل میں رہائش اختیار کرنے کے لئے چھانگا مانگا کے جنگلات تک بس میں سوار ہوکر جانا پڑے گا۔پھر اگر نہ ہو تو رینٹ اے کار والی ٹیکسی کروانا پڑے گی۔میرا خیال ہے اور شاید درست ہو کیونکہ پیڑ درخت بوٹے پودے جاندار ہیں۔ان کو بے دردی سے شہر والوں نے کاٹا ہے۔اتنا کہ شہر کا شہر میدانِ بن چکا ہے جہاں پلازے اگ آئے ہیں۔ان جانداروں کی بد دعا کاکارن بھی ہو سکتا ہے کہ ہم پر اتنی سخت گرمی کی لہر آئی ہے۔کورونا کی ڈیلٹا کی لہر کافی نہ تھی جو اب یہ دن بھی دیکھنا تھے۔ماحول کو جوبرباد کرے گا اس نے اسی ماحول میں رہ کر ماحول کی بد دعا بھی سہنا ہے۔پھراس شر انگیزی کی سزا بھی پانا ہے۔خوب کاٹو درخت اور خوب ان شاخوں اور تنوں کی لاشیں قطار اندر قطار ٹھیکیدارکے ساتھ مل کر زمین پر بچھا دو۔ آخر اس عمل کی سزا جو جولائی میں مل رہی ہے۔وہ اگست میں بھی ملے گی۔ پھرکہیں جاکر ستمبر بھی تپ رہاہوگا۔پھر یکم اکتوبر کو بھی اس سختی کی معاف نہ ہوگی۔ پندرہ دن اور بھی گرمی کے دھپڑ وں سے چہرے لال ہوں۔ نادان سمجھیں گے کہ جسم کی اپنی لالی ہے اور خون ہے جو قطر ہ قطرہ حسن کی وافر مقدار ہونے کے سبب ٹپکنا چاہتا ہے۔انگریزوں کے دورِ حکومت میں ہمارے ہاں یکم ستمبر سے سردی کا پہلا دن ہوتا تھا۔مگر اب بات کچھ اور ہے پھر قابلِ غور ہے۔مگر اس پر کوئی غور نہیں کرے گا۔وہ یہ کہ گرمی کاموسم درختوں کا برامنانے والوں کیلئے بہت الٹا پڑا ہے۔پھر پندرہ اکتوبر کیا دسمبرجنوری تک بات گئی تو پھر”بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی“۔ کیونکہ اپنے ہاتھوں سے برباد کئے ماحول میں گلوبل وارمنگ تو گذشتہ چالیں برسوں سے آہستہ سہی مگر آکر اب شدید ہوئی ہے۔اس کی شدت کو کم کرنا ہے اور درخت اُگانا ہے۔