افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی جاری ہے جبکہ امریکی افواج انخلا کے ساتھ طالبان پر حملوں میں افغان فوج کی معاونت بھی کر رہے ہیں اور اِس سلسلے میں افغانستان سے متعلق جنگی امور کے نگران جنرل کینتھ میکنزی کا بیان (چھبیس جولائی) لائق توجہ ہے جس میں اُنہوں نے کہا کہ ”(امریکی افواج) طالبان کے خلاف جنگی کاروائیوں میں حصہ لیتے رہیں گے“ اور اِسی بیان کے ایک حصے میں اُنہوں نے ایک ایسی حقیقت کا بھی بیان ہے‘ جسے افغان حکومت تسلیم نہیں کرتی اور وہ یہ ہے کہ ”طالبان کی فتح یقینی ہے!“ توجہ طلب یہ بھی ہے کہ غیرملکی افواج کا بہت سارا جنگی ساز و سامان‘ جسے وہ چاہتے ہوئے بھی ساتھ نہ لیجا سکے‘ طالبان جنگجوؤں کے ہاتھ لگ گیا ہے جس کی وجہ سے بھی طالبان کی افغانستان میں پیش قدمی میں غیرمعمولی تیزی آئی ہے اور انہوں نے گذشتہ دو ماہ کے دوران جس قدر علاقوں پر قبضہ کیا ہے وہ اطلاعات کے مطابق سال دوہزارایک میں اُنہیں اقتدار سے علیحدہ کئے جانے کے بعد سے پہلی مرتبہ اتنے علاقوں پر کنٹرول ہے گویا افغانستان کے محاذ پر طالبان کی واپسی حکومت بنانے سے قبل ہی نصف سے زیادہ علاقوں پر عمل داری سے واضح ہوئی ہے۔ عملداری کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ایک نیا افغانستان معرض وجود میں آ رہا ہے جہاں حکمرانی کرنے والوں کے بارے میں ابہام نہیں رہا۔ طالبان کی پوزیشن پہلے سے زیادہ مستحکم دکھائی دیتی ہے جنہوں میں افغانستان کے شمالی‘ شمال مشرقی اور وسطی صوبے‘ غزنی اور میدان وردک میں طاقت کے مراکز قائم کر لئے ہیں اور اب وہ زیادہ بڑے شہروں جیسا کہ قندوز‘ ہرات‘ قندہار اور لشکر گاہ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ اضلاع طالبان کی عمل داری میں آ چکے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُن اضلاع کے ضلعی انتظامی مراکز‘ پولیس کے ضلعی ہیڈکواٹر اور دیگر ضلعی اداروں کی عمارتوں سے سرکاری اہلکاروں اور افغان فوجیوں کو بے دخل کر دیا گیا ہے۔ امریکہ اور نیٹو کی افواج نے شمالی اتحاد اور طالبان مخالف دیگر مسلح گروہوں کی مدد سے نومبر دوہزارایک میں طالبان کو اقتدار سے بیدخل کر دیا تھا جس کے بعد سے دارالحکومت کابل سمیت افغانستان کے طول و عرض میں طالبان پھیل گئے اور انہوں نے اپنی مسلح جدوجہد بیس برس جاری رکھی۔ ماضی میں جن علاقوں پر طالبان کی عمل داری برقرار رہی وہیں سے اُنہوں نے زور پکڑا جیسا کہ جنوبی اور جنوب مغربی علاقوں کے علاوہ شمال میں ہلمند‘ قندہار‘ ارژگان اور زابل شامل تھے۔ جنوب میں فریاب کی پہاڑیوں‘ شمال مغرب کی پہاڑیوں اور شمال مشرق میں بدخشاں کے پہاڑوں میں بھی طالبان کی سرگرمیوں کو نہیں روکا جا سکا کیونکہ اِن میں مقامی جنگجوؤں کی اکثریت تھی۔ افغانستان کی ڈیڑھ کروڑ آبادی جو مجموعی آبادی کا نصف حصہ ہے وہ طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں رہتی ہے‘ جہاں طالبان کھلم کھلا موجود رہے اور مسلسل افغان فوجوں پر حملے کرتے رہے۔ افغانستان کی مجموعی صورتحال غیریقینی سے دوچار ہے۔ افغان فوجی اگرچہ ضلعی مراکز سے پسپا ہوئے لیکن اُن کے جوابی حملے اور فضائیہ کے استعمال کی وجہ سے طالبان کے جانی نقصانات اِس مرتبہ اِس لئے زیادہ ہو رہے ہیں کیونکہ وہ سفید جھنڈوں کے ساتھ نکل آئے ہیں اور اب اُنہیں شناخت کرنا آسان ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان فورسز کے جوابی حملوں جن میں امریکہ کی معاونت بھی شامل ہے کی وجہ سے چند علاقوں پر افغان حکومت نے دوبارہ اپنی عملداری قائم کی۔ جن علاقوں میں سرکاری افواج کو از سر نو منظم کر لیا گیا اور مقامی لوگوں کی حمایت بھی حاصل کر لی گئی ہے ان میں کچھ علاقوں سے طالبان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے یا اب وہاں سے لڑائی کی اطلاعات ہیں۔ اِس صورتحال میں امریکہ کا کردار انتہائی اہم ہے جن کا انخلأ اگرچہ جون سے جاری ہے لیکن مٹھی بھر امریکی فوجی کابل میں موجود ہیں اور امریکی فضائیہ نے گزشتہ چند دنوں میں طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر پیغام دیا ہے کہ اُن کا انخلأ مکمل ہونے سے پہلے ہی واپسی بھی ہو سکتی ہے۔ افغان فوج زیادہ تر اُن میدانی شہروں اور اضلاع میں قدم جمائے ہوئے ہیں اور انہی علاقوں میں زیادہ تر آبادی ہے۔ البتہ طالبان کی عمل داری اُن علاقوں پر ہے جہاں آبادی کم ہے اور کئی جگہوں پر فی کلومیٹر علاقے میں پچاس سے بھی کم افراد ملتے ہیں۔ افغان حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے بڑے شہروں جو طالبان کی پیش قدمی کی زد میں ہیں وہاں فوجی کمک بھیج دی ہے اور تقریباً ملک بھر میں رات کے وقت کا کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے تاکہ طالبان کے حملوں کو روکا جا سکا۔افغانستان میں خانہ جنگی کی صورت جاری خونریزی بھی اپنی جگہ تشویشن کا باعث ہے۔ رواں برس کے پہلے نصف حصے میں ریکارڈ تعداد میں افغان ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ اس سال ملک میں سولہ سو سے زیادہ شہریوں کی تصدیق کر چکی ہے جس کیلئے وہ افغان حکومت مخالف عناصر کو ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ اِس پوری صورتحال سے عام افغان متاثر ہو رہا ہے جو جاری خانہ جنگی سے بچنے کیلئے نقل مکانی کر رہے ہیں اور اس سال کے آغاز سے تین لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین کے مطابق بدخشان‘ قندوز‘ بلخ‘ بغلان اور تخار کے وسیع علاقوں پر طالبان کے قبضے کی وجہ سے اندرون ملک مہاجرین کی نئی لہر آئی ہے۔ کچھ لوگ عارضی طور پر اپنے گھروں کو چھوڑ کر قریبی دیہاتوں یا اضلاع میں چلے گئے تھے لیکن بعد میں واپس آ گئے لیکن بہت سے افغان ایک لمبے عرصے سے بے گھر ہیں اور افغان شہری ہی نہیں بلکہ سرکاری فوجی اور اہلکار بھی ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خانہ جنگی کے اِس ماحول میں اندرون ملک داخلی راستوں پر حکومت کا تسلط نہیں رہا بالخصوص سپین بولدک کی اہم سرحدی گزر گاہ اور اِس کے اطراف میں طالبان کی عملداری قائم ہے جبکہ خانہ جنگی کی وجہ سے افغانستان کیلئے درآمدات اور برآمدات (کاروباری سرگرمیوں) کے بندوبست میں بھی خلل پڑا ہے جس کی وجہ سے خوارک اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور افغانستان میں ایک طرف انسانی بحران پھیل رہا ہے تو دوسری طرف مہنگائی اور اشیا کی قلت سے عوام کی اکثریت متاثر ہو رہی ہے‘ جن کے بارے میں بہت کم بات ہو رہی ہے۔ نجانے وہ دور کب آئے گا‘ جب ایک عام افغان کی مشکلات ختم ہوں گی اور یہی وہ مرحلہئ فکر ہے جس کے بارے میں افغان حکومت اور طالبان کو سوچنا چاہئے کہ وہ افغان مسئلے کا حل نہیں بلکہ بذات خود مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔