محصولات: اصلاحات کی ضرورت ۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام خرابیوں کا مجموعہ نہ ہوتا تو حسب بودوباش (رہن سہن) ٹیکس وصولی قطعی مشکل نہ تھی اور نہ ہے اور لب لباب یہ ہے کہ ٹیکس نظام میں موجود سقم کی بار بار نشاندہی ہو رہی ہے لیکن اِن خامیوں کو دور کرنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات نہیں کئے جاتے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ کم آمدنی رکھنے والے افراد کے قومی شناختی کارڈ نمبروں پر‘ بنا علم‘ کروڑوں روپے کی لین دین یا بینکاری ہوئی ہے۔ حالیہ مثال رواں ہفتے صوبہ پنجاب کے صنعتی مرکز فیصل آباد سے سامنے آئی ہے جہاں  ایکشخص نے جب اپنا ’نیشنل ٹیکس نمبر (NTN)‘ حاصل کرنے کے لئے ’فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR)‘ کے دفتر سے رجوع کیا تو اُسے بتایا گیا کہ وہ 600 موٹرسائیکلوں کا مالک ہے جبکہ حقیقت اِس کے برعکس تھی۔ سائل نے بذریعہ تحریری درخواست ’ایف بی آر‘ حکام سے چھان بین کرنے اُور اُس کے نام پر ہوئی جعلسازی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے لیکن یہاں  سائل کو درخواست دینے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ اُس کے بیان پر ’ایف بی آر‘ کو حرکت میں آنا چاہئے تھا۔ کسی شخص کا قومی شناختی کارڈ نمبر‘ اُس کی مرضی کے بغیر استعمال کرنے کا معاملہ اِس قدر سادہ نہیں جتنا بظاہر دکھائی دے رہا ہے کیونکہ امکان یہ بھی ہے کہ اِس طرح سے ہوئی مالی لین دین دہشت گردانہ سرگرمیوں کی معاونت کے لئے استعمال کی گئی ہو اور پاکستان پہلے ہی ’فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)‘ کی نظروں میں مشکوک ہے کیونکہ ہمارے ہاں قومی شناخت‘ بینکاری اور ٹیکس کے نظام میں سقم موجود ہیں‘ جنہیں ایک ایک کر کے دور کیا جا رہا ہے لیکن جب ایسی کوئی مثال منظرعام پر آتی ہے جس میں قومی شناختی کارڈ نمبر کی بنیاد پر غیرمتعلقہ شخص نے کروڑوں کی لین دین کی ہو تو عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ اور اُن کوششوں کو نقصان پہنچتا ہے جو ’ایف اے ٹی ایف‘ کی ’گرے لسٹ‘ سے نکلنے کے لئے کی جا رہی ہیں! ذہن نشین رہے کہ کسی بھی شخص (جانے انجانے‘ مرد یا عورت) کا قومی شناختی کارڈ نمبر یا دیگر کوئی شناختی دستاویز استعمال کرنا صرف جعل سازی ہی نہیں بلکہ دھوکہ دہی کے زمرے میں بھی شمار ہوتی ہے اور یہ صرف ’ایف بی آر‘ قواعد کے تحت ہی خلاف قانون نہیں بلکہ تعزیرات پاکستان کے تحت بھی قابل سزا و جرمانہ جرم ہے اور اصولاً ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ فوری کاروائی کرتے ہوئے جعل سازی اور دھوکہ دہی کرنے والے شخص تک پہنچا جاتا جو باآسانی ممکن ہے۔ البتہ اِس پوری صورتحال سے دوچار  شخص کا اپنی قسمت پر رشک کرتے ہوئے ہنستے یا روتے روتے بُرا حال ضرور ہوا ہوگا کہ وہ بیٹھے بٹھائے کروڑ پتی بنا اور کھڑے کھڑے کروڑوں روپے کے اثاثوں سے محروم ہو گیا۔ نجائے ایسی کتنی ہی مزید مثالیں بھی ہوں گے۔فیصل آباد سے مانوس قارئین جانتے ہوں گے کہ وہاں کے قدیم بازاروں میں ایک ’سوتر منڈی‘ بھی ہے چونکہ فیصل آباد میں کپڑے بنانے کی صنعتیں زیادہ ہیں اِس لئے ’سوتر منڈی‘ میں ہر سال اربوں روپے کی خریدوفروخت ہوتی ہے اور حال ہی میں ’ایف بی آر‘ نے مذکورہ منڈی میں ہونے والی لین دین میں پائی جانے والی مبینہ بے قاعدگیوں (ٹیکس چوری) کی چھان بین کا فیصلہ کیا ہے جو دھاگے اور کپڑے کی خریداری سے متعلق ہے۔ ذہن نشین رہے کہ مذکورہ منڈی صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے خطے (براعظم ایشیا کے 48 ممالک بشمول چین‘ بھارت‘ انڈونیشیا‘ بنگلہ دیش اور جاپان) میں سب سے بڑی منڈی ہے  فیصل آباد ’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)‘ منصوبے کا بھی حصہ ہے اور وہاں ’علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی‘ کے نام سے خصوصی صنعتی بستی قائم ہو رہی ہے جو پاکستان کی جدید ترین اور مراعات یافتہ صنعتی بستی ہو گی اور اِس میں BMR کہلانے والے 3 عالمی اصولوں (بیلنسنگ‘ ماڈرن ائزیشن اُور ریپلیسمنٹ) کے مطابق صنعتوں اور سرمایہ کاروں کو مراعات دی جائیں گی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ صنعتی اور کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کے ساتھ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہونا چاہئے۔ موجودہ وفاقی حکومت (تحریک انصاف) کا کارنامہ ہے کہ اِس نے ٹیکس دہندگان کی تعداد 30 لاکھ سے بڑھا دی ہے۔