دنیا بھر میں کورونا کی ایک نئی شکل ڈیلٹا ویرئنٹ”ڈیلٹا متغیر“کے نام سے سامنے آئی ہے جو زیادہ متعدی اور تباہ کن ہے۔بھارت میں تباہی پھیلانے والے ڈیلٹا نے پاکستان کے صوبہ سندھ سمیت ملک کے دیگر خطوں میں بھی خطرے کا الارم بجانا شروع کردیا ہے۔ تو کیا حالات سنگین ہو جائیں گے، پہلے سے زیادہ لوگ بیمار اور مر جائیں گے؟ کیا ڈیلٹا کے خلاف قدرتی مدافعت اور حفاظتی ٹیکے موثر ہوں گے؟ اور ہم کیا کر سکتے ہیں؟ویکسین لگانے کی کم شرح اور احتیاطی تدابیر کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں کے بعد اور ڈیلٹا کے ظہور کے بعد حالیہ دنوں میں کورونا کے مثبت کیسوں کی شرح میں کئی مہینے بعد اچانک اضافہ دیکھا گیا ہے۔اس ہفتے پاکستان ان تیس ملکوں میں شامل ہوا جن میں دس لاکھ سے زیادہ افراد کورونا وائرس سے متاثر ہیں۔ روزانہ رپورٹ شدہ کیسوں کی تعداد ملک بھر میں چار ہزار سے زیادہ ہوگئی ہے۔ کراچی میں 100 فیصد کورونا کیسز میں ڈیلٹا رپورٹ ہورہا ہے۔پاکستان میں جس طرح کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں اور اکثر شہری ویکسین لگوانے میں جس طرح تاخیر کررہے ہیں اس کے پیش نظر خدشہ ہے کہ وطنِ عزیز میں بھی کورونا وبا کی صورتحال خطرناک اور ناقابل برداشت ہوجائے گی، جلد ملک میں دوبارہ لاک ڈاؤن کا اعلان کرنا ہوگا اور تعلیمی اداروں، تجارتی سرگرمیوں اور آمد ورفت پر 2020 جیسی پابندیاں پھر لاگو کرنا ہوں گی۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی اس مہینے کے شروع میں کورونا کی چوتھی لہر سے اور بالخصوص ڈیلٹا سے عوام کو خبردار کیا تھا اور انہیں بار بار ہاتھ دھونے، ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ اختیار کرنے کا کہا تھا۔ کورونا کی چوتھی لہر ابھی پوری طرح سے نہیں آئی اور اگر آگئی تو خدانخواستہ ملک بھارت جیسی صورتحال کا سامنا کرسکتا ہے اور یہ صحت کے نظام پر بڑا بوجھ ڈال دے گا۔حفظان صحت کے اصولوں سے عدم واقفیت یا لاپرواہی، میل جول میں بے احتیاطی، وبا کی روک تھام کیلئے احتیاطی تدابیر ملک میں علاج معالجے اور تشخیصی سہولتوں کے فقدان اور ویکسین لگوانے میں تامل و تاخیر نے وبا کے خطرے میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ جب ایک طرف شعور و احتیاط کی کمی ہے اور دوسری طرف سازشی نظریات عوام کو احتیاط سے روک رہے ہوں تو پھر، خاکم بدہن، ہمیں کسی بڑے سانحے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ڈیلٹا وائرس اب تک نوے ممالک میں پھیل چکا ہے۔ جولائی میں ڈیلٹا ویرئینٹ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا، بھارت اور دیگر ممالک میں کورونا کی ایک غالب قسم بن کر سامنے آیا ہے۔ خاص طور پر برطانیہ میں ڈیلٹا ویرئینٹ کے نئے کیسز عام کورونا کے مقابلے میں 97 فیصد سے زائد ہیں اور امریکہ میں بھی اب ڈیلٹا کی وجہ سے کورونا انفیکشن اور اموات زیادہ ہوگئی ہیں۔ امریکا میں کووڈ کے نئے کیسز میں ڈیلٹا سے متاثر افراد کی تعداد 83 فیصد ہے۔ ڈیلٹا متغیر کورونا وائرس کی زیادہ خطرناک اور مہلک قسم ہے یہ وائرس تیزی سے پھیلتااور دوسری اقسام کی نسبت زیادہ لمبے عرصے تک جسم میں موجود رہتا ہے۔ یہ2019 میں چین میں پہلی بار سامنے آنے والے کوویڈ-19کے مقابلے میں ساٹھ فیصد زیادہ متعدی ہے۔ اس میں بھی کورونا کی طرح مستقل کھانسی، سردرد، بخار اور گلے کی سوزش کی علامات ہوتی ہیں تاہم بعض مریضوں میں سردرد، گلے کی سوجن، نزلہ اور بخار کی علامات زیادہ شدید ہوتی ہیں۔ یہ 2019 والے وائرس سے تقریبا ایک ہزار گنا زیادہ وائرل لوڈ پیدا کرتا ہے اور جتنا لوڈ زیادہ ہوتا ہے اتنی بیماری کی سختیاں اور اموات زیادہ ہوجاتی ہیں۔خطرے کی بات یہ ہے کہ ڈیلٹا ویکسین لگوانے والوں کو بھی نہیں بخش رہی ہے اور ویکسین کی پہلی خوراک بطور خاص اس کا راستہ روکنے کے قابل نہیں۔ کراچی کے ہسپتالوں میں داخل مریضوں پرکی گئی ایک تحقیق کے مطابق 76 فی صد افراد کو پہلی ویکسین اور 24 فی صد کو دوسری بھی لگی تھی۔ تاہم ایک ویکسین لگوانے والے مریضوں میں مرض کی شدت زیادہ تھی۔ اب تک موڈرنا، فائزر، جانسن اور جانسن اور نوووایکس کورونا کے تمام معلوم و نامعلوم اقسام سے محفوظ رکھنے میں موثر رہی ہیں۔تاریخ یہی سکھاتی ہے کہ کسی وبا کے بعد کے مرحلے پہلے مرحلے سے اکثر زیادہ تباہ کن ثابت ہوئے ہیں۔ کسی سانحے سے بچنے کیلئے ویکسین لگانے کاعمل تیز کرنے اور احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ چین میں ایک ارب، امریکہ میں تیس کروڑ، جرمنی میں آدھی آبادی اور بھوٹان میں بھی ایک ہفتے میں نوے فیصد بالغ آبادی کو ویکسین لگادی گئی۔ اگرچہ پاکستان میں فروری میں لازمی ویکسین لگوانے کا کام شروع ہوا۔ حکومت کا ہدف سات کروڑ افراد کو ویکسین لگانے کا تھا مگر اب تک صرف پچاس لاکھ افراد دونوں لازمی ویکسین جبکہ دو کروڑ ایک ویکسین لگوا چکے ہیں۔ اب حکومت دسمبر 2021 تک ملک کی8.5کروڑ آبادی کو ویکسین لگوانا چاہتی ہے۔ کل اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کورونا ریلیف پیکج کی 352 ارب روپے بقایا رقم سے ویکسین خریدنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔کورونا کے خلاف مدافعتی نظام مضبوط کرنے اور اس کے شدید حملے اور ہسپتال سے بچنے کیلئے مکمل ویکسین لگوانا بہترین تحفظ ہے تاہم ماہرین کے مطابق جو افراد ویکسین لگوا لیں انہیں بھی ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے سے پہلوتہی نہیں کرنی چاہئے۔ خصوصاً جب کوئی اندرونی پروگرام ہو اور وہاں ایسے لوگ ہوں جنہوں نے ویکسین نہیں لگوایا ہے۔کورونا وائرس سے نمٹنے کی حکمت عملی کیلئے شعور، عزم، احتیاطی تدابیر، آبادی کی اکثریت کو ویکسین لگوانا اورمشترکہ کوششیں ضروری ہیں مگر ہمارے لائح عمل میں یہ سب عناصرتاحال مفقود ہیں۔ ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ کہیں دیر نہ ہوجائے۔ حکومت احتیاطی تدابیرپر عمل کیلئے میڈیا، اساتذہ، علما، سیاسی و مذہبی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں اور غیر سیاسی گروہوں اور شخصیات سے مدد لے تاکہ یہ مشکل مرحلہ کامیابی سے طے ہو۔