پہلے تو تیسری کا سن رہے تھے‘اب چوتھی لہر کا غلغلہ بھی بلند ہو رہا ہے۔کورونا کی اقسام کا الگ دھڑکا تھا۔اب نئی قسم اور اوچھے وار کرنے والی ڈیلٹا کی لہر کا آوازہ ہے۔اس دوران حد سے زیادہ احتیاط یہی ہے کہ ویکسین لگالی جائے۔ ویسے بھی اگر یہ ٹیکہ نہ لگائیں تو آخر ایک دن مجبور ہو کر لگانا ہی پڑے گا۔ جو سوشل میڈیا پر تقریروں کے کلپ دکھائے جا رہے ہیں۔ان کو اگر غور سے سنیں اور پھر ان کی موویاں دیکھیں جو ٹیکے کے حق میں ہیں تو آپ کو خود بخود اندر سے ایک منصف آرڈر پاس کرے گا کہ ویکسین لگا لو۔ وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ویکسین کے خلاف جو ویڈیوز اپ لوڈ ہو رہی ہیں سخت بے جان ہیں۔ جیسے کوئی سیب باہر سے توانا اور رس بھرا نظر آئے مگر اندر سے رسیلا نہ ہو اور اس کا شیرہ سوکھ چکا ہو۔میں نے بھی توویکسین آخر کار لگا لی ہے۔پہلے تو دو ستوں سے پوچھا پھر سوشل میڈیا پردو اطراف بیانات سنتا رہا۔کہیں جا کر تین مہینوں میں دل کو چند باتیں اچھی لگ گئیں اور نہ صرف خود کو بلکہ زوجہ کو بھی جاکر ٹیکہ لگوا لایاکیونکہ کورونا کے وار گہرے ہو رہے ہیں۔ کبھی تو سکول کھلتے ہیں اور کبھی بند ہو جاتے ہیں۔چوتھی لہر میں زیادہ لوگوں کے مرنے کے امکانات ہیں۔میں نے لندن میں اپنے دوست سلیم اختر سے پوچھا کہ برطانیہ والا کورونا تو بہت خطرناک ہے۔مگر اس کے باوجو د وہاں کرکٹ کے میچ ہو رہے ہیں۔لارڈز کے گراؤنڈ پر اور دوسرے شہروں میں تماشائیوں کا بہت رش ہوتا ہے۔سب پاس پاس بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ کیا تضاد ہے۔پھرتم کو اپنے وطن آنے سے کیوں روکا ہوا ہے۔اس نے بتلایا کہ ارضِ وطن میں لوگ ویکسین نہیں لگا رہے۔اس لئے ہمیں وہاں نہیں جانے دیتے۔ لارڈز کے کرکٹ میدا ن میں اس لئے تماش بینوں کا رش ہے کہ وہاں سب نے ویکسین کے ٹیکے لگائے ہیں۔اس لئے اب ان کو وہاں خطرہ نہیں رہا۔میں نے ویکسین لگانے سے پہلے وطن میں سے اور پھر باہر کے ملکوں میں پھیلے ہوئے دوستوں یاروں شاگردوں سے وٹس ایپ کر کے پوچھا کہ آپ کے ہاں ویکسین کا کیا حساب ہے۔انھوں نے بتلا یا کہ یہاں سب عوام با شعور ہیں۔سب نے ویکسین لگا رکھی ہے۔اس لئے ہمیں کوئی پروا نہیں۔خلیج کے ملکوں سے بھی شاگردوں کی آوازیں ابھریں کہ یہاں تو کورونا کو اختتام پذیر سمجھ لیا گیاہے کیونکہ سب کے بازواس انجکشن سرنج کی چبھن سہہ چکے ہیں۔ اس لئے یہاں کوئی غم نہیں۔ ہر کوئی ملک کے اندر ہر کہیں جا سکتاہے مگر چونکہ پاکستان کے لوگ ابھی پورے طور پرکورونا ویکسین سے آشنا نہیں ہوئے۔پھرانھوں نے اس سے راہِ فرار اختیار کی ہے۔اس لئے ہمیں اپنے وطن میں آنے جانے کی کھلی چھو ٹ نہیں۔افریقہ سے دوست نے بتلایا کہ یہاں ماسک کی سخت پابندی کی جاتی ہے۔ورنہ پکڑ دھکڑ کا عمل جاری رہتا ہے۔جرمنی سے بھی ویکسین کے لگانے کی بے فکری ظاہر ہوئی۔تب جا کر دل کو ڈھارس ہوئی کہ اگر یہ ہمارے لئے خطرناک ہوتی تو باہر کے ملکوں میں سب لوگ نہ لگواتے۔ یہاں تو اب بزور یہ ٹیکہ لگائے جائے گا۔کیونکہ ایک بیمار باقی کے صحت مندلوگوں کو بھی بیمار کر سکتا ہے۔اس لئے اس وائرس کو پورے طور پر ختم کرناکسی کے بس میں نہیں رہے گا۔ سو اب سو سو طرح سے تڑیاں دی جارہی ہیں کہ جس نے نہیں لگوائی اس کے ساتھ ہر طرح کا قانونی سلوک کیا جائے گا۔ اصل میں ہماری قوم سادہ دل قوم ہے۔سمجھ بوجھ نام کو نہیں۔جب عام آدمی کا شناختی کارڈ بلاک ہوگا تو اس کو ہر طرح سے ویکسین کی سوئی لگانا پڑے گی۔ کیونکہ اس سوھنی دھرتی میں جہاں کہیں بھی جائیں شناختی کارڈ مانگا جاتا ہے۔اگر ویکسین نہ لگائیں اور شناختی کارڈ بلاک کر دیا جائے تو بندہ اپنے ہی وطن میں اجنبی بن جائے گا۔پھر سوطرح کی پریشانیاں جھیلنا پڑیں گی۔نہ تو ڈومیسائل بنے گا نہ ہسپتال میں علاج ہوگانہ داخلے ہوں گے خواہ پاسپورٹ کے لئے ہوں یا اداروں میں گیٹ کے اندر جایا جائے یا سکول کالج یونیورسٹی میں۔جو کام ہے یہاں رکا رہے گا۔جب تک کورونا کی ویکسین کی سند دکھائی نہ جائے۔ شہر سے باہر گلیات کی سیر کو نہیں چھوڑیں گے۔اچھے اچھوں نے ویکسین لگا رکھی ہے بلکہ اس کا دوسرا ٹیکہ بھی لگایا ہواہے۔پہلے جان ہے پھر جہان ہے۔ہر آدمی کو درکار ہے کہ وہ اپنے آپ کی زندگی محفوظ بنائے جنھوں نے ٹیکے لگا رکھے ہیں ان سے میں نے انٹرویو کئے ہیں۔ان کو ٹیکے کے کارن کوئی سائیڈ ایفیکٹ محسوس نہیں ہوئے۔کورونا میں انتقال کرجانے سے تو ٹیکہ لگا لینا زیادہ بہتر ہے۔مگر اس کے لئے ہم میں شعورہونا چاہئے۔ماسک پہننا بہت ضروری ہے۔لوگوں نے جیسے سر کی جوئیں تلاش کی جاتی ہیں ماسک میں سے کیڑے نکالے ہیں۔سوشل میڈیا کا کیا ہے۔جس کا جو جی چاہا اپ لوڈ کردیا۔پھر کمال بات ہے کہ ہمارے سوشل میڈیا کے دیوانے اس پر اعتبار بھی کرلیتے ہیں۔