ماضی کے جنگجو ؤں یا افغانستان سے آنے والے مہاجرین‘ ہر تھکن سے چور قافلے کیلئے ”دارالامان اور دار ِسکون‘ پشاور قرار پاتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں جاری خانہ جنگی اور اِس کے طول پکڑنے کے آثار ہر دن واضح ہونے کی وجہ سے اہل پشاور میں تشویش پائی جاتی ہے‘ جنہیں کچھ سہارا وزیراعظم عمران خان کے اِس بیان سے ملا ہے کہ ”پاکستان مزید افغان مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔“ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کی خانہ جنگی پاکستان میں بھی داخل ہوسکتی ہے جبکہ تیس لاکھ افغان مہاجرین پہلے ہی پاکستان میں موجود ہیں اُور اگر افغان امن مذاکرات کے ذریعے کسی حل (نتیجے) تک نہ پہنچا تو اندیشہ ہے کہ مہاجرین کی صورت زیادہ بڑا انسانی المیہ جنم لے گا جس میں لاکھوں افغان جان بچانے کے لئے پاکستانی سرحد کی طرف آنا شروع کریں گے! دریں اثناء وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نیگزشتہ روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی قیادت افغانستان میں امن کی خواہاں ہے، افغانستان کے بارے میں ہماری پالیسی واضح ہے، ہم افغانستان میں کسی ایک گروپ کی حمایت یا اسے مضبوط نہیں کر رہے بلکہ ایک ایسا ماحول تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں افغانستان کے تمام گروپس آپس میں مل بیٹھ کر متفقہ حکومت تشکیل دے سکیں، ہم خطے میں اقتصادی و تجارتی روابط کو فروغ دینا چاہتے ہیں، وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی کا انحصار مستحکم افغانستان پر ہے۔ سنجیدہ اُور توجہ طلب مرحلہئ فکر ہے کہ پاکستان کی کوششوں سے امریکہ اور طالبان براہ راست مذاکرات پرآمادہ ہوئے اور ان کے درمیان امن معاہدہ (اُنتیس فروری دوہزاربیس) طے پا گیا۔ دوحا (قطر) میں طے پانے والے اِس دستاویزی معاہدے کے تحت امریکہ نے مئی دوہزاراکیس تک افغانستان سے انخلاء کرنا تھا اور طالبان کے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات سے معاملات طے پانا تھے۔ طالبان نے خواتین کے حقوق کے تحفظ اور داعش و القاعدہ کے ساتھ رابطے نہ رکھنے کا یقین دلایا تھا لیکن افغان حکومت نے مذاکرات اور امن معاہدے کی اشرف غنی انتظامیہ نے شدید مخالفت کی۔ اس کی طرف سے امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی ہرممکن کوشش۔ صدر اشرف غنی‘ وزیر خارجہ امر صالح اور قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب آج بھی پاکستان کے خلاف اسی وجہ سے بے بنیاد الزام لگاتے ہیں۔ وہ طالبان کو کسی طور اقتدار میں حصہ دار بنانے پر تیار نہیں۔ اپنے اقتدار کی خاطر وہ امریکہ پر افغانستان میں موجود رہنے کے لئے زور دیتے رہے۔ ایسے میں طالبان اور حکومت کے مابین مذاکرات کیسے کامیاب ہوسکتے تھے۔ اب امریکہ انخلاء کی تکمیل کے قریب ہے تو طالبان افغانستان کے 90 فیصد علاقوں پر قابض ہوچکے ہیں۔ جس فوجی قوت کے بل بوتے پر اشرف غنی حکومت طالبان کا مقابلہ کرنا چاہتی تھی۔ اس کے کئی ”سپوت“ طالبان کے ساتھ مل گئے۔ کچھ ازبکستان کی سرحد عبور کرگئے جبکہ پاکستان آنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ امریکہ کی طرف سے معاملات اشرف غنی حکومت کی صوابدید پر چھوڑنا بہت بڑی غلطی تھی۔ بین الافغان مذاکرات امریکہ کی چھتری تلے ہوتے تو یقینا کامیاب ہوتے۔ اُس وقت طالبان ”کچھ لو اور کچھ دو“ کے اصول پر عمل پیرا ہوسکتے تھے۔ اب وہ اتنے طاقتور ہوچکے ہیں کہ اپنی شرائط پر معاملات آگے بڑھائیں گے۔ انکی طرف سے اقتدار میں آنے کا اتنا یقین ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ عالمی سطح پر رابطے کررہے اور افغانستان کو پرامن بنانے کی یقین دہانیاں کرا رہے ہیں۔ ملا عبدالغنی برادرکی سربراہی میں طالبان وفد نے چین کا دورہ کیا اور چینی قیادت کو یقین دلایا کہ افغان سرزمین کسی کے بھی خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ ادھر اشرف غنی حکومت طالبان کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے تمام ممکنہ وسائل حتیٰ کہ طاقت کا بے دریغ استعمال کررہی ہے اُور یہ حقیقت سمجھنا نہیں چاہتی کہ اگر فضائی حملوں اُور اسلحے سے استعمال سے مقامی عسکری مزاحمت کو شکست دی جا سکتی تو یہ کام بیس سال میں امریکہ اُور اِس کے اتحادی زیادہ جدید ہتھیاروں اُور زیادہ تربیت یافتہ فوجیوں کے ذریعے کر چکے ہوتے! لب لباب یہ ہے کہ افغانستان میں امن کی بحالی کی امید یں دم توڑ رہی ہیں کیونکہ وہاں زمینی حالات ہر دن بد سے بدتر ہورہے ہیں اُور امریکی افواج کا انخلأ اگست کے وسط‘ آخر یا ستمبر کے شروع تک مکمل ہونے کے ساتھ باقاعدہ خانہ جنگی شروع ہو جائے گی! جس کے منفی اثرات سے پاکستان (باوجود کوشش و خواہش بھی) محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ پاکستان میں پہلے سے ہی تیس لاکھ مہاجرین موجود ہیں لیکن مہاجرین مسئلہ نہیں بلکہ اِن کے بھیس دہشت گرد ہیں! اُور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی معاشی حالت کورونا وبا کے بعد ایسی ہے کہ یہ مزید افغان مہاجرین کابوجھ اٹھانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ وقت ہے کہ پاکستان افغان مسئلے کے سیاسی حل کے لئے فریقین پر دباؤ ڈالے اُور اِس سلسلے میں عالمی برادری کو مہاجرین کے بارے پاکستان کے مؤقف سے آگاہ کرے کیونکہ اندرون ملک جو امن و امان بڑی مشکل سے ممکن ہوا ہے‘ افغان مہاجرین کی آمد کی صورت ایک مرتبہ پھر تہہ و بالا ہو جائے گا۔