سائنسدانوں نے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا دمدار ستارہ دریافت کیا ہے جو 100 سے 200 کلومیٹر وسیع ہے اور 2031 میں ہمارے نظامِ شمسی کے قریب سے گزرے گا۔
یونیورسٹی آف پینسلوانیا کے پروفیسر گیری برنسٹائن اور ان کے پی ایچ ڈی شاگرد پیڈرو برنارڈینیلائی نے مشترکہ طور پر اسے دریافت کیا ہے اور اسی بنا پر اسے برنسٹائن برنارڈینیلائی دمدار ستارے کا نام دیا گیا ہے۔ 2031 میں یہ زمین سے قربت پر ہوگا جسے دیکھنے کےلیے ایک دوربین درکار ہوگی، حالانکہ جتنے دمدار ستارے ہم دیکھ چکے ہیں یہ ان سے ایک ہزار گنا بڑا ہے۔
اس دیونما دمدار ستارے کا تکنیکی نام C/2014 UN271 بھی ہے۔ یہ نظامِ شمسی سے باہر لاکھوں کروڑوں برس سے زیرِ گردش ہے۔ اسی لیے یہ زمین سے دریافت ہونے والا بعید ترین دمدارستارہ بھی ہے جس کی قربت پر اسے دیکھتے ہوئے نظامِ شمسی اور کائنات کے ارتقا کو سمجھنے میں مدد مل سکے گی۔
چلی میں واقع ’سیرو ٹولولو انٹرامریکن رصدگاہ‘ پر نصب چار میٹر قطر کی دوربین سے اسے دریافت کیا گیا ہے۔ اس دوربین پر ڈارک انرجی کیمرہ بھی نصب ہے۔ اس دوربین سے حاصل شدہ چھ سالہ ڈیٹا کا صبر آزما تجزیہ کرکے یہ دمدار ستارہ دریافت کیا گیا ہے۔ ڈاکر انرجی سروے میں دنیا کے سات ممالک اور 25 اداروں سے وابستہ 400 سائنسداں شامل ہیں۔
منصوبے کے تحت رات کی تاریکی میں دکھائی دینے والی 30 کروڑ کہکشاؤں کا نقشہ بھی بنایا جارہا ہے۔ اسی کی بدولت کئی دمدار ستاروں، برفیلے اجسام اور دیگر اجرامِ فلکی کو بھی دیکھا گیا ہے۔ ان کی اکثریت سیارہ نیپچوں سے پرے ہے اور انہیں نظامِ شمسی سے باہر ہی گردانا جاتا ہے۔
اس چھ سالہ ڈیٹا کو چھاننے کےلیے یونیورسٹی آف الینوئے کے سپرکمپیوٹنگ مرکز سے مدد لی گئی۔ اس دوران ایک ہی فلکیاتی جسم کو 32 مرتبہ دیکھا گیا اور وہ یہی دمدارہ تھا۔