افغانستان سے صرف امریکی افواج کا انخلأ نہیں ہو رہا بلکہ اِس میں نیٹو نامی تنظیم کے رکن ممالک اور بھارت بھی شامل ہے گویا افغانستان کے محاذ پر صرف امریکہ ہی کو نہیں بلکہ دیگر ممالک کو بھی شکست ہوئی ہے اور بیرونی طاقتوں کی افغانستان میں دلچسپی وہاں قیام امن کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ ہے۔ اِس سلسلے میں تازہ ترین پیشرفت رواں ہفتے امریکہ اور بھارت کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں اگرچہ بظاہر کورونا وبا اور دوطرفہ دلچسپی کے دیگر موضوعات پر تبادلہئ خیال ہوا لیکن بھارتی ذرائع ابلاغ جے شنکر اور بلنکن کی ملاقات میں اُٹھائے گئے نکات میں افغانستان کی سلامتی کے زیرغور آنے کا بھی تذکرہ کر رہے ہیں‘ جس کے بارے میں مشترکہ پریس کانفرنس میں پوچھے ایک سوال کے جواب میں بھارتی وزیرخارجہ ایس جے شنکر اور امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا کہ ”پرامن اور مستحکم افغانستان امریکہ اور بھارت کے مشترکہ مفاد میں ہے۔“ بھارتی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اِس بات چیت میں امریکہ نے بھارت کو یقین دلایا ہو گا کہ ’افغانستان میں اس کے مفادات کا خیال رکھا جائے گا۔‘ امریکہ فی الوقت مشکل میں دکھائی دے رہا ہے کہ ایک تو وہ افغانستان چھوڑنا چاہتا ہے اور دوسرا وہ نہیں چاہتا کہ اُنیس سو نوے کی دہائی کے حالات واپس لوٹیں۔امریکہ اور بھارت کے گٹھ جوڑ میں کواڈ (چار ممالک) کے اتحاد اور اِس کے مستقبل بارے بھی تبادلہئ خیال ہوا ہے جس میں جاپان‘ آسٹریلیا‘ امریکہ اور بھارت شامل ہیں تاہم ابھی تک اِس ’کواڈ‘ نامی گروہ بندی کے مقاصد واضح نہیں ہوئے جسے اگرچہ ”غیر فوجی اتحاد“ قرار دیا جاتا ہے لیکن دنیا جانتی ہے کہ جب بھی ممالک کے درمیان ایسے اتحاد بنتے ہیں تو اُن کے تجارت یا دوستی کے علاوہ سیاسی و دفاعی پہلو بھی ہوتے ہیں۔ آج کی تاریخ میں یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ ’کواڈ‘ کیا ہے اور یہ اتنا اہم کیسے ہے۔ چار ہم خیال ممالک اکٹھے ہو رہے ہیں تاکہ وہ متحد ہو کر کام کرسکیں اور یوں انڈو پیسیفک علاقے پر حاکمیت بنائی جائے گی۔ جہاں تک افغانستان کی بات ہے تو امریکہاُور بھارت کے مؤقف میں زیادہ فرق نہیں۔ بھارت نے کہا ہے کہ ”اگر بیس سال بعد امریکہ افغانستان سے نکل رہا ہے تو یہ اس کا پالیسی فیصلہ ہے اور اس پر بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے‘ چاہے یہ فیصلہ صحیح ہے یا نہیں۔“ فی الوقت امریکہ اور بھارت افغانستان میں اپنی پوزیشن برقرار رکھنا چاہتیہیں۔ اِس صورتحال میں امریکہ چین پر بذریعہ تبت دباؤ ڈال رہا ہے اور رواں ہفتے امریکہ کی تبتی نمائندے سے ملاقات کو چین کیلئے ایک اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ دلائی لامہ کے نمائندے کے ساتھ بلنکن کی ملاقات سے چند دن قبل‘ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کی سالگرہ کی مبارکباد دالائی لامہ کو بھیجی۔ یہ امریکہ اور بھارت کی طرف سے چین کی طرف اشارہ ہے کہ آنے والے وقت میں تبت کے معاملے کو اٹھایا جا سکتا ہے۔ اِن حالات میں دلائی لامہ اور مودی کے درمیان ملاقات بھی ممکن ہے۔ یہ سب اس وقت ہوا جب شی جن پنگ تبت کا دورہ کیا اور اپنی جارحانہ پالیسیوں کا اظہار کیا۔ یہ بھارت اور امریکہ کے تبت کے معاملات اٹھانے کا اشارہ ہے۔ بلنکن کی کارکردگی سے چین پر امریکی دباؤ پر کوئی اضافی اثر نہیں پڑے گا‘ صرف اس سے عوام کو مدد ملے گی۔ چینی عوام امریکہ کی چین سے دشمنی کے بارے میں زیادہ پر اعتماد ہوں گے۔ امریکہ یہ غلط کارڈ کھیل رہا ہے جو شرمناک بھی ہے۔
امریکہ افغانستان کے ذریعے چین پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے تاکہ وہ ان پالیسیوں پر خاطر خواہ عمل نہ کر سکے جو چین نے خطے کی ترقی کے لئے اپنا رکھی ہے اور جس میں پاکستان اہم شراکت دار ہے یوں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بھارت اور امریکہ کاکھیل ابھی شروع ہوا ہے اور افغانستان سے انخلاء کے بعد امریکہ نہ صرف یہاں پر اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے گا بلکہ اپنے ساتھ بھارت کو بھی اہم پارٹنر کے طور پر سرگرم رکھے گا جس کے خطے پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور جس کے لئے ابھی سے تیاری ضروری ہے۔