کبھی آپ نے سوچا ہے۔لیکن میرا خیال ہے نہیں سوچاہوگا۔ یا اگر سوچابھی ہو تو بہت کم لوگ اس کام کی اہمیت اور اس کی نزاکت سے واقف ہوں گے۔یعنی وٹس ایپ پر کسی گروپ کاایڈمن ہونا۔واقعی یہ ایک مشکل کام ہے۔ پھر ایڈمن کی ڈیوٹی پر اس کو رحم کی نگاہ سے دیکھنا ہوگا۔ کسی گرو پ میں جتنے اراکین ہوں۔اتنا ہی ایڈمن کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ایڈمن ہر پوسٹ کو پڑھے گا ہرمووی کو دیکھے گا اگر کوئی اشاعت کے قابل نہ ہوئی تو اس کو ڈیلیٹ کرے گا۔ سال میں توبہت سے دن ہیں۔پھر مختلف ناموں سے منائے جاتے ہیں۔کاش یہ انگریز لوگ ایڈمن ڈے بھی منائیں اور اس دن گروپ ایڈمن کوراضی کریں انعامات سے نوازیں۔کیونکہ یہ جان جوکھم کاکام ہے۔دنیا بھر کی ملامتی اسی بے چارے کے حصے میں آتی ہیں۔کیونکہ اس سلسلے میں بہت مشکلات ہیں۔ممبرز کی باتیں الگ سننا پڑتی ہیں۔شکایتیں ہوتی ہیں۔یہ آپ کر کیا کررہے ہیں۔ فلاں کو منع کریں یہ گروپ اس لئے نہیں۔اس میں ناچ گانے کیوں آ گئے۔گروپ ایڈمن سب کی سنتاہے۔کسی کو بلاک کرناپڑتا ہے۔ کسی کی پوسٹ کو اول تا آخر پڑھنااور اس پر ستم یہ کہ سمجھنا پڑتا ہے۔ اس لئے کہ کوئی چیز غلط طور پر آگے نہ وہ جائے۔یہ کیا کم کارنامہ ہے کہ وہ سوچتاہے کہ یہ تحریر پیش کی جائے یاچھوڑدی جائے۔ سب لائک کریں اور بغیردیکھیں کریں گے مگر وہ اکیلا سب کی پوسٹیں پڑھے گا۔اول تاآخر ایک ایک لفظ کو دیکھے گا۔کسی کا کمنٹ ڈیلیٹ کردو تو واویلا مچ جاتا ہے۔ہر ممبرسوچتا ہے میری پوسٹ نہایت اہم ہے۔اگرچہ کہ اس میں اس کے بچوں کی تصویریں ہی کیوں نہ ہوں۔کوئی کہتا ہے کہ ایڈمن صاحب آپ کہاں سو رہے ہیں۔ یہ مواد تو قابلِ اشاعت ہی نہیں تھا۔پشاوراردو پوائنٹ کے ہمارے بہت پیارے دوست امجدخان بھی ایک ایڈمن ہیں۔ایڈمن سب سے پیار کرتا ہے سب کی عزت کرتا ہے۔اس کو دیکھناپڑتا ہے کچھ واہیات تو نہیں بکواسیات تو نہیں۔میں نے بھی ایک بار گروپ بنایا تھا۔ مگر باپ کی توبہ۔ وہ وہ دن دیکھنا پڑے کہ اپنے کئے پر پشیمان ہونے پر بھی تکلیف میں پڑ گئے تھے۔ وہ اس لئے کہ گروپ سازی کے بارے میں بھرپور واقفیت بھی تو نہ تھی۔ گروپ بنا تو لیا۔مگر معلوم نہ تھا اس کو کیسے ختم کرتے ہیں۔ جہاں تک ممبرکا تعلق ہے۔وہ تو کسی بھی وقت ایک کلک سے اپنے آپ کو گروپ سے نکال سکتا ہے۔مگر ایڈمن کا گروپ کو ختم کرنا آسان نہیں ہوتا۔بہت زمانے پہلے کی بات ہے۔ جب گروپ کے بارے میں خلقِ عام کو اتنا پتا نہ تھا۔ میں نے گروپ بنالیا۔ ڈیرھ سو ساتھیوں کے نمبر جوڑ لئے۔اس کے بعد پہلا سوال یہ ابھرا کہ یہ گروپ کس نے بنایا ہے۔دوسرا سوال یہ کہ میرا نام کیوں ڈالا ہے۔ممبر آپس میں لڑنے لگے۔ ایک بات جو خاص تھی کہ گروپ میں صرف ایڈمن کو بولنے کی اجازت تھی۔ ایک معروف پروفیسر نے تواس حد کہہ دیا اور انتہائی سخت الفاظ جن کودوہرانا اپنی ناموس کودوبارہ اچھالناہوگا۔ کہنے لگے میں ایسے گروپ کو دفان کرتا ہوجس میں صرف ایڈمن کو بولنے کی اجازت ہو اور ممبر کے ہونٹوں پرچپ کی مہرلگا دی جائے۔دوچا ر اسی طرح کے پیغامات وصول ہوئے تو ہم بھیگی بلی بن کر تماشا دیکھتے رہے کہ اب کیا کریں۔ہم نے ایک کلک کرکے گروپ ختم کردیا۔ ایک دوست کو کہہ دیا کہ میں نے گروپ ختم کر دیا ہے۔ مگر بعدمیں دوست نے فون پر بتلایاآ پ نے کیسے گروپ ختم کیا ہے۔گروپ تو جاری ہے۔ ہائیں۔۔ میں بہت حیران ہوا۔ میں نے کہا تو میں نے تو ایگزٹ کردیا ہے۔انھوں نے فرمایا نادان سمجھدارانسان گروپ ایسے ختم نہیں ہوتا۔ میں نے کہا تو پھرکیسے ہوتاہے۔کہنے لگے ایک ایک کو ڈیلیٹ کرو گے۔لومیں نے کہا۔کر لوں گا مگر کیسے۔انھوں نے کہا۔اپنے آپ کو نکالا ہے تو اب کوئی اور ایڈمن ہے۔میں نے کہاوہ کون ہے۔کہا معلوم نہیں۔میں نے کہا اس کی تصویر سکرین شارٹ کرکے بھیجو۔معلوم ہوا کہ ہمارے علاقے کا ایک دکاندار ہے۔جس کو پڑھنے لکھنے کے ساتھ دور کابھی واسطہ نہیں۔ میں ہنگامی بنیاد پراس کی دکان پہ پہنچا معلوم ہوا کہ وہ تو گاؤں گیا ہے۔کب آئے گا۔ کہنے لگے کل شام کو۔ اب دوسرے دن شام تک کیسے انتظار کیا جائے۔کیونکہ گروپ کے ممبران آپس میں موبائل میں لڑائیوں میں مصروف تھے۔ جب دوسرے دن میں اس دکان میں پہنچا تو کہا یار معافی چاہتاہوں۔آپ گروپ کے ایڈمن ہیں۔آپ گروپ کو ختم کردیں۔ وہ ہکابکا رہ گیا۔ بلوں کی سی گول گول آنکھیں گھما کر مجھے دیکھنے لگا۔ کہا سر جی یہ گروپ کیا ہوتا ہے۔مجھے توکچھ پتا نہیں۔یہ لیں میرا موبائل آپ خود دیکھ لیں۔کہانی مختصر کرتا ہو ں۔ اس کے موبائل سے لے کر اپنی غلطی پر پردہ ڈالتے ہوئے ایک ایک کر کے آدھ گھنٹے میں سب نمبراڑائے تو تب جا کرسکونِ قلب حاصل ہوا اور گھر پہنچا۔وہ دن اور آج کا دن گروپ بنانا تواپنی کتاب ہی میں نہیں۔ہاں ممبر ہوناقبول ہے۔وہ بھی ایک آدھ گروپ کا۔دو سے زیادہ گروپ تو نہ میں افورڈکر سکتاہوں نہ تو میرے کم قیمت موبائل کی میموری اس قابل ہے کہ اتناسرمایہ سہار سکے۔اس لئے خود کوپانچ گروپوں سے نکالا ہے۔ وجہ یہ کہ معلوم نہیں اور تکیہ کے پاس پڑے موبائل میں پڑے پڑے اتنا ڈیٹا آگیاکہ موبائل الٹا ہینگ ہو گیا اور نیاز مند کو گھنٹہ بھر سے کچھ معلوم ہی نہیں تھا۔