پاکستان کے نکتہئ نظر سے افغانستان میں جاری ’لمحہ بہ لمحہ خونریزی‘ پر نظر رکھنا ضروری ہے‘ جہاں حکومت (افغان سکیورٹی فورسز) اور عسکری تحریک چلانے والے افغان طالبان باہم دست و گریباں ہیں بالخصوص افغانستان کے جنوب اور مغرب میں موجود تین بڑے شہروں میں لڑائی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوتی نظر آ رہی ہے اور طالبان ان شہروں کی عملداری سرکاری افواج سے چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ طالبان ہرات‘ لشکر گاہ اور قندھار کے کچھ حصوں پر پہلے ہی اپنی عمل داری قائم کر چکے ہیں۔ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان زیادہ سے زیادہ علاقوں پر اپنی عمل داری قائم کرنے کیلئے جھڑپوں کا سلسلہ دیہی علاقوں سے شروع ہوا جہاں ہر محاذ پر طالبان کو کہیں فوری تو کہیں بدیر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ مذکورہ اہم شہروں کی قسمت انسانی بحران کے خدشات کے حوالے سے اہم ہو سکتی ہے اور یہ بھی کہ حکومتی افواج کتنی دیر تک صورتحال پر قابو پا سکیں گی۔ فی الوقت طالبان کی توجہ افغانستان کے شہری علاقوں پر ہے اور امن و امان کی صورتحال انتہائی غیرمستحکم و غیرپائیدار ہے لیکن صوبہ ہلمند کا مرکز لشکر گاہ جہاں بہت سے امریکی اور برطانوی فوجی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں‘ میں اس وقت سب سے زیادہ مخدوش حالات ہیں۔ افغانستان کے ذرائع ابلاغ سے نشر اور شائع ہونے والی اطلاعات کی عرق ریزی سے اِس نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے کہ مقامی افراد طالبان کی مدد کر رہے ہیں اور طالبان نے مقامی لوگوں کے گھروں میں پوزیشنیں سنبھال رکھی ہیں‘ جس کی وجہ سے انہیں شناخت کرنا اور اُن کے خلاف کاروائیاں اور اُنہیں نکالنا مشکل ہو رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ افغان تجزیہ کار اِس صورتحال کو طویل اور خونی خانہ جنگی کا آغاز قرار دے رہے ہیں۔ زیادہ دنوں کی بات نہیں لگ رہی کہ قندھار شہر میں ایک مرتبہ پھر طالبان کی عمل داری قائم ہو جائے گی جہاں سے ہزاروں کی تعداد میں مقامی لوگ پہلے ہی نقل مکانی کر چکے ہیں اور نقل مکانی کا یہ سلسلہ جاری ہے جسے انسانی آفت قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ امن و امان کی غیریقینی پر مبنی صورتحال ہر گزرتے گھٹنے بد سے بدتر ہو رہی ہے۔افغانستان کے مختلف علاقوں بالخصوص قندھار میں ہونے والی لڑائی گزشتہ بیس برس کے دوران شدید ترین قرار دی جا رہی ہے۔ طالبان اب قندھار کو ایک اہم مرکز کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ایک ایسا شہر جسے وہ اپنا عارضی دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔ اگر قندھار شہر طالبان کے قبضے میں چلا گیا تو اس سے خطے میں موجود پانچ سے چھ صوبے بھی ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ اِس اہم شہر کے اُن اطراف میں طالبان موجود ہیں جہاں بہت زیادہ شہری آبادی رہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اِن کے خلاف حکومتی فوج بھاری ہتھیار استعمال نہیں کر پا رہی۔ افغانستان کے مغربی شہر ہرات پر عمل داری قائم کرنے کیلئے بھی طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان لڑائی جاری ہے ایران کی سرحد سے متصل ہرات شہر افغانستان کے اہم صوبے ہرات کا دارالحکومت ہے۔ یہ تاریخی اور ثقافتی ورثے کے حوالے سے بھی نمایاں صوبہ اہم تجارتی مرکز بھی ہے چنانچہ اس پر قبضہ ہونا طاقت کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔قطر (دوحا) سے خبررساں ادارے ”الجریزہ ٹیلی ویژن“ نے اطلاع دی ہے کہ تیس جولائی کے روز ہرات شہر میں اقوامِ متحدہ کے دفاتر پر حملہ ہوا‘ جس میں کئی پولیس اور اقوام متحدہ کے اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ مئی سے زور پکڑنے والی اِن پُرتشدد کاروائیوں کے ساتھ جیسے امریکہ اور اِس کی اتحادی افواج کا انخلا مکمل ہو رہا ہے طالبان ایک کے بعد ایک اضلاع میں اپنی عمل داری قائم کرتے جا رہے ہیں اور انہوں نے پاکستان کی چمن سرحد کے ساتھ ایران اور ترکمانستان کے ساتھ واقع دو سرحدی چوکیوں پر بھی قبضہ حاصل کر لیا ہے۔ افغانستان کے جنوبی صوبہ ہلمند کے دارالخلافہ لشکر گاہ سے اطلاعات ہیں کہ طالبان شہر سے دو کلومیٹر تک پہنچ چکے ہیں جن کی پیش قدمی افغان سکیورٹی فورسز نے روک رکھی ہے۔ اِس پوری افغان صورتحال کا لب لباب یہ ہے کہ طالبان ایک مرتبہ پھرافغانستان میں حکومت قائم کرنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں دوسری طرف عام افغان سمجھتا ہے کہ ملک میں امن و امان کا قیام صرف اِسی صورت ممکن ہے جب ایک وسیع البنیاد عبوری حکومت قائم ہو اورفغان عوام کو اِن کی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیا جائے۔