متنا سب نما ئندگی کا نظام ۔۔۔۔

وزیر اعظم عمران خا ن نے ایک بار پھر کہا ہے کہ انتخا بی اصلا حا ت کے بغیر دھا ندلی، دھاندلی کا شور نہیں تھمے گا ہر ایک ہا ر نے والا دھا ندلی ہی کا بہا نہ بنا ئے گا حکومت نے انتخا بی اصلا حا ت کے حوالے سے قومی اسمبلی میں جو بل پیش کیا ہے اس میں بائیو میٹرک نظا م پر زور دیا گیا ہے اگر حکومت کو دو تہا ئی اکثریت ملی اور بل منظور ہوا تو ٹھپہ لگانے کی جگہ کمپیو ٹر کی مدد سے خود کار طریقہ سے ووٹ دیئے جا ئینگے ووٹوں کی گنتی بھی کمپیو ٹر سے ہو گی اور کسی کو اعتراض کا مو قع نہیں ملے گا اپوزیشن با یو میٹرک سسٹم کیلئے تعاون پر تیار نہیں اپو زیشن کا کہنا ہے کہ 25جو لا ئی 2018کو کمپیوٹر کا نظام نا کا م ہوا ریموٹ کنٹرول سے آر ٹی ایس کو نا کا رہ بنا یا گیا اور نتا ئج کے اعلا ن میں جان بوجھ کر 18گھنٹوں کی تا خیر  کی گئی  جس کی وجہ سے شکو ک اور شبہات پیدا ہوئے اس وقت مجوزہ بل پر تعطل بر قرار ہے اس اثنا میں آزاد کشمیر کے انتخا بات نے حکومت اور اپو زیشن کو با مقصد مذاکرات کے ذریعے بل میں تر میم کے بعد با یو میٹرک سسٹم کی طرف جا نے کا راستہ دکھا یا ہے پر نٹ اور الیکٹرا نک میڈیا میں خبریں آگئی ہیں کہ آزاد کشمیر کے انتخا بات میں تحریک انصاف کو 6لا کھ 74ہزار ووٹ ملے، پیپلز پارٹی کو 5لا کھ سے اوپر ووٹ مل گئے ن لیگ نے 3لاکھ ووٹ لئے ممبروں کی تعداد اس تنا سب سے سا منے نہیں آئی یہ وہ نکتہ ہے جس پر حکومت اور اپو زیشن مذا کر ات کی میز پر آسکتے ہیں ووٹوں کے تنا سب سے نما ئندگی اور ممبروں کی تعداد حاصل کر نے کیلئے دنیا کے جمہوری مما لک میں جو طریقہ اختیار کیا جا تا ہے اس کو پرو پورشنل رپیریزنٹیشن یعنی متنا سب نما ئندگی کا نظام کہا جا تا ہے فری اینڈ فیر الیکشن نیٹ ورک (FAFEN) نے اپنی حا لیہ رپورٹ میں پا کستا ن کیلئے متنا سب نما ئندگی کے نظام کو سیا سی مسا ئل کا حل قرار ر دیا ہے اور اسے رائج کر نے کی سفارش کی ہے اس وقت یو رپی یونین کی پا رلیمنٹ کے انتخا بات متناسب نما ئندگی کی بنیا د پر ہو تے ہیں یورپی ممالک میں سے بیشتر قوموں نے اپنے حالات کے مطا بق اس طریقہ کو اپنا یا ہے اور اسے مفید پا یا ہے متنا سب نما ئندگی کے نظام میں کئی ما ڈل اور نمونے آز ما ئے گئے ہیں سب سے عام فہم اور آسا ن ماڈل یہ ہے کہ انتخا بات میں اُمیدوار سامنے نہیں آتے سیا سی پا رٹیوں کے درمیاں مقابلہ ہو تا ہے ہر پارٹی انتخا بات میں اپنے متو قع ممبران اسمبلی کی تر جیحی فہرست الیکشن کمیشن کے پاس جمع کر تی ہے جیسا کہ ہمارے ہاں مخصوص نشستوں کیلئے فہرستیں جمع کر ائی جا تی ہیں اس سسٹم میں برادری، دولت اور دھو نس دھا ند لی کے ذریعے ووٹ لینے کی گنجا ئش نہیں ہو تی پارٹی کو اپنے وفادار کا ر کنوں اور مختلف شعبہ جا ت کے ماہرین کی بجائے الیکٹیبلز کو تلا ش کرنے کی ضرورت نہیں ہو تی اور ہر شعبہ کے ما ہرین ان کی فہرست میں میرٹ کے لحا ظ سے جگہ پا تے ہیں جن سیا سی جما عتوں کے پاس نظر یاتی کارکنوں کی تعداد لا کھوں کروڑوں میں ہو تی ہے ان پا رٹیوں کو متنا سب نما ئندگی کے نظام سے فائدہ ہو تا ہے اور دیکھا جائے تو زیادہ  سیاسی جماعتیں اس نظام کی مخا لفت نہیں کریں گی کیونکہ ان کے پا س نظریاتی کا ر کنوں کی کمی نہیں۔ اس طرح زیادہ تر سیاسی جماعتوں کو پارٹیوں کے کیڈر کو شخصیات کی جگہ منشور کے حوالے سے منظم کرنا ہو گا اگر ایک پارٹی کو منشور کے لحا ظ سے 55فیصد ووٹ ملے تو وہ حکومت بنا ئے گی اور اس کے پاس حکومت چلا نے کیلئے مطلو بہ قابلیت، کردار اور صلا حیت کے حا مل اراکین مو جو د ہو ں گے بائیو میٹرک سسٹم کے ساتھ متنا سب نما ئندگی کو ملا کر مجوزہ بل پر حکومت اور اپو زیشن نے دو تہائی اکثریت سے قا نون بنا یا تو ہما رے انتخابی نظام کے تما م نقا ئص کو دور کرنے میں مدد ملے گی نہ اسمبلی میں قابل لو گوں کی کمی ہو گی اور نہ الیکشن کے بعد دھاند لی‘ دھا ندلی کا شور ہو گا۔