سڑکو ں کا برا حال۔۔۔۔۔

اگر پشاور میں بارش نہیں ہو رہی تو اس میں بھی قدرت کا کوئی راز پوشیدہ ہوگا۔ کیونکہ ہم تو دس دنوں سے بادلوں کی چھاؤں تلے جی رہے ہیں۔پھر یہ کڑواہٹ جو زمین اور کھیتوں کو ہم بھی پی رہے ہیں۔پورے گلوب پر بارشیں سایہ کئے ہوئے ہیں۔تباہیاں مچی ہوئی ہیں۔ سڑکوں پر بہتے ہوئے پانی شہریوں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔پھر رہائشی بھی اچانک کے حملہ آور پانی سے جان بچانے کیلئے سائیڈ کی گلیوں میں چھلانگیں لگا کر بھاگتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ پانی تہہ خانوں میں داخل ہو کر شہریوں کی موت کا سبب بھی بنا ہے۔بارشوں کا ہوناشکر ہے اور اس قدر بہتات اور فروانی سے برس جانا خطرناک ہے۔ایسے میں پشاور میں اگر بارشوں کی نوید ہے مگر نہیں ہوتیں تو بر ا کیاہے۔کیونکہ دوسرے علاقوں سے تو سیلاب کی بری بری خبریں کانوں میں زہر گھول رہی ہیں۔پھر ہماری سڑکیں اور راستے کون سے درست ہیں۔ راہیں پر پیچ ہیں جہاں کھڈے ہیں۔ سڑکیں ٹوٹی ہوئی۔ اگر بارش کا ہونا ہو تو ان کھڈوں کو بھرجانا ہے۔اتنا کہ پھریہ حالتِ زارسنبھالے نہیں سنبھلے گی ۔کیونکہ آگے ہی مختلف محکموں کی کارستانیوں کے کارن شہر تو کھنڈرات کا منظر پیش کرتا ہے۔پھر اوپر سے ہمارے اپنے شہری جو سڑکو ں کو توڑتے پھرتے ہیں۔اس تاراج حالت میں اگر اوپر سے مینہ بھی برس برس جائے تو پھریہاں کا شہری کہاں جائے۔حیران ہو ں کہ جو بھی اقتدار میں آتا ہے وہ اور چیزوں پر توجہ دیتے ہیں۔ وہاں سڑکوں کو آخر پہ رکھتے ہیں۔ اس فہرست میں جہاں اوپروالے کام ایک ایک کر کے اگر ہوں تو اتنے میں خود ان کے اپنے جانے کاوقت قریب آ جاتا ہے۔وہ باقی کا کام نئے آنے والوں کے کاندھوں پر ناحق ڈال کرچلے جاتے ہیں۔ یہ سڑکیوں تب سے جوچھوٹی ہیں تواب تک ان کو بھولی ہوئی ہیں۔نہروں میں سے پانی اگر ابل کر سڑک پر آ جائے تو پندرہ دنوں میں کہیں جا کر یہ تالاب کامنظر بادلوں میں بدلتا ہے۔وگرنہ تو روز یہاں سے گاڑیاں گزران کرتی ہیں اور راہگیروں کے جامہ ئ زیبا پر گندے پانی کے چھینٹے پڑتے ہیں۔کیا ہماری سڑکیں اس قابل ہیں کہ چند گھنٹوں کی بارش برداشت کریں۔ اگر قدرت مہربان ہو اور خیر خیریت کا باراں ہو تو الگ بات ہے۔مگر جہاں ملک کے دوسرے علاقوں کی سڑکوں میں بنے ہوئے تالابوں میں پانی کھڑا ہے وہاں تو پھر ہمارے آس پاس تو پانی کا کھڑے ہو جانا عام ہے۔سڑکیں جو عوام نے خود توڑیں وہ الگ ہیں۔پھر جو سرکار کے سرکاری نمائندے آکر توڑ جاتے ہیں وہ جدا ہیں۔تین سال ہو گئے نہر کنارے کی سڑک کو دور تک ایک پٹی کی صورت میں کھودا گیا۔ تاکہ اس میں سوئی گیس کی پائپ لائن گذاری جائے۔لائن تو گذر گئی مگر جو یہاں کے رہائشیوں پر گذر رہی ہے اس کو تو باقی کاشہر نہیں جانتا۔آج بھی اس سڑک کے کنارے کھدائی کے آثار جوں کے توں موجو د ہیں۔چھوٹی سی سڑک ہے جس پر ایک گاڑی گذر سکتی ہے۔مگر یہاں سڑک کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ایک سے توگاڑی گذر جاتی ہے۔ مگر کھدائی کر کے مٹی بھرنے کی وجہ سے جو ٹیلے اور ناہموار سطح ہے وہاں سے سامنے والی گاڑی کا کراس کرنا مشکل ہوتا ہے۔ سو ایک گاڑی کو انتظار کرنا پڑتاہے۔پھرایک مصروف ترین بازار ہے جہاں یہی کچھ ہوا۔لگ بھگ دو سال پہلے۔ موٹے موٹے کیبل ڈالنے کے لئے یہاں دور تک دو بار سڑک کو کریدا گیا مسخ کیا گیا اور ٹیلے چھوڑ کر وہ جب گئے توآج تک ان کی دید کو آنکھیں ترس ترس جاتی ہیں۔یہ تو معروف بازار ہے اور رش اتنا ہوتا ہے صبح ہو یا شام ہو یا چھٹی ہو گاڑیاں الجھ جاتی ہیں۔ ایسے میں ناہمواری یہ کہ سڑک خراب ہو تو بندہ کیا کرے۔آپ اگر اس کھوج میں ہیں کہ بھلا یہ دو علاقے جو ابھی بیان میں آئے کون سے ہیں تو اس تلاش کی ضرورت نہیں۔یہ عالم ہرجگہ اس شہر میں اس کی خوبصورتی کے روز روز مزید خراب ہونے پر گواہ ہے۔آپ کہیں بھی اپنے قریب یا تھوڑی دور اس قسم کی بری حالت کانقشہ دیکھ سکتے ہیں۔جب سڑک ٹوٹ جاتی ہے۔پھر اس کے بعد کوئی نہیں دیکھا جو اس سڑک کے داغ اور دھبے اور کھڈے دوبارہ سے تعمیر کرے۔