اولمپک مقابلے: کارکردگی و ترجیحات

جاپان میں جاری اولمپکس مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے کھلاڑیوں کے دستے کی کارکردگی غیرمتوقع طور پر مایوس کن رہی ہے اور قومی دستے میں شامل دس میں سے نو کھلاڑی اور ایتھلیٹ بغیر کوئی میڈل جیتے مقابلوں سے باہر ہو چکے ہیں تاہم باقی رہ جانے والے اکلوتے ایتھلیٹ ارشد ندیم سے امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں کہ وہ پاکستان کا نام روشن کریں گے۔ دو اگست تک پاکستان کے نشانہ باز غلام مصطفی بشیر نے پچیس میٹرز ریپڈ فائر پسٹل ایونٹ کے دوسرے مرحلے میں خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ مقابلے کے فائنل مرحلے تک رسائی حاصل نہ کر سکے جبکہ اِس سے ایک روز قبل مکمل ہوئے مرحلے وہ غلام مصطفی بشیر چھٹے جبکہ ان کے ساتھی خلیل اختر سولہویں نمبر پر رہے تھے تاہم دوسرے مرحلے کے بعد غلام مصطفی بشیر دسویں نمبر پر آ گئے جبکہ تمغہ حاصل کرنے کے مقابلے کے لئے انہیں پہلی چھ پوزیشنز میں سے کوئی ایک حاصل کرنا تھی۔پاکستان کی نمائندگی کرنے والی ایتھلیٹ نجمہ پروین جو قبل ازیں دو اولمپکس مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی خاتون ہیں جنہوں نے خواتین کی 200 میٹر دوڑ (ریس) کے پہلے مرحلے ہی میں اپنی مایوس کن کارکردگی کے باعث مقابلے سے باہر ہو گئیں تھیں۔ یہ کارکردگی اس لئے بھی مایوس کن ہے کیوں کہ نجمہ کے پاس 200میٹر کا قومی ریکارڈ تیئس اعشاریہ چھ نو سیکنڈ موجود ہے تاہم جاپان میں اُنہوں نے اٹھائیس اعشاریہ ایک دو سیکنڈ میں ریس مکمل کی۔ اُمید یہ تھی کہ وہ تیئس سیکنڈ کو بہتر بناتے ہوئے 200 میٹر فاصلہ بیس سکینڈ یا اِس سے کم میں طے کریں گی لیکن وہ ایسا نہیں کر سکیں جو اِس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اولمپک مقابلوں کے لئے خاطرخواہ تیاری نہیں کی گئی تھی۔ ذہن نشین رہے کہ اولمپک مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے بائیس رکنی دستے میں 10ایتھلیٹس اور 12آفیشلز شامل ہیں اور اب تک اِن مقابلوں سے باہر ہونے والوں میں نشانہ باز خلیل اختر‘ غلام مصطفی بشیر اور گلفام جوزف کے علاؤہ ایتھلیٹ نجمہ پروین‘ ویٹ لفٹر طلحہ طالب‘ بیڈمنٹن کھلاڑی ماحور شہزاد‘ تیراک حسیب طارق‘ بسمہ خان اور جوڈو کھلاڑی شاہ حسین شاہ شامل ہیں۔ پاکستان اگرچہ ایک بھی اولمپک میڈل جیتنے میں کامیاب نہیں ہوا تاہم اب تک کی سب سے بہترین کارکردگی دکھانے والے ایتھلیٹ ویٹ لفٹر طلحہ طالب رہے جنہوں نے 67کلوگرام کیٹیگری میں یوں تو پانچویں پوزیشن حاصل کی لیکن وہ ایک مرحلے پر میڈل جیتنے کے انتہائی قریب پہنچ گئے تھے وقت ہے کہ کھیلوں کی تنظیموں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور پاکستان سپورٹس بورڈ کے درمیان ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کے روایت کو ختم کیا جائے۔ پاکستان سپورٹس بورڈ نے گزشتہ مالی سال کے دوران 44 کروڑ روپے کا فنڈ حکومت کو واپس کیا لیکن اِسے بذریعہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن بروئے کار لانے کی ضرورت تھی۔ تحریک انصاف (کپتان کی حکومت) کے بارے میں ایک تاثر یہ تھا کہ اِس دوران پاکستان میں سب سے زیادہ کھیلوں کو فروغ حاصل ہوگا لیکن اولمپک کھیلوں میں مایوس کن کارکردگی سے عیاں ہے کہ اِس شعبے سے متعلق بھی ترجیحات ازسرنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔