آئیے صبر وسکون کے کچھ پل تلاش کریں۔آپس میں گپ شپ لگائیں۔ہنسیں کھیلیں۔سیروں خون بڑھائیں۔ کیونکہ معاشرے کی بے سکونی اس وقت زوروں پر ہے۔ابتری کا گراف اوپرکو مسلسل جاتا جا رہاہے۔کسی وقت کوئی خوشی کی خبر ہو۔ اس کیلئے تو ترس گئے ہیں اور میڈیا تو ماحول کا آئینہ ہے۔جو دیکھتا ہے بیان کرتا ہے مگر جو کچھ دیکھ رہا ہے وہ اگر اچھا نہیں توکوئی کیا کر سکتا ہے۔جامہ ئ ہستی کی یہ بوسیدگی جب ہمارے معاشرے کی قسمت میں لکھ دی گئی ہے تو اس کو بدلنا ہمارے بس میں کہاں ہے۔وہی فرسودہ روایات وہی پرانی جھولتی ہوئی سوچیں۔یہی ہمارا معاشرہ ہے۔یہی اس کے ماتھے کا ٹیکہ ہے۔آئیں ہنستے کھیلتے ہیں۔کوئی گیم کو ئی گپ شپ۔یہاں تو دو اور دو چار ہیں اور بس چار ہیں اس کے آگے کچھ ہے ہی نہیں۔آئیے چار کو آٹھ اور آٹھ کو سولہ بنادیں۔شہریوں کے منہ روپے پیسے کی کمی کی وجہ سے لٹکے ہوئے ہیں۔منہ بسورے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔گھر میں بچوں کے چہروں سے جیسے کسی نے بشاشت نوچ نوچ کر اتار دی ہے۔معاشرہ خود تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔ وہ رونقیں وہ چہل پہل کہاں ہے۔”وہ فراق اور وہ وصال کہاں۔ وہ شب وروز ماہ و سال کہاں“۔تھا کبھی اس نام کا شہر دنیا میں۔مگراب تو ویرانی کے ڈیرے ہیں۔سڑکوں کو دن کے وقت بھی پُر شور دریا کی آوازیں آتی ہیں۔جو کہیں شہر ہی کو بہا نہ لے جائے۔”مژگاں توکھول شہر کو سیلاب لے گیا“۔ اسلام آباد میں پانی نے کیا آگ لگائی۔پھر ڈیلٹا کی پر شور لہروں کا چرچا ہے۔ سکون غارت ہوا جاتا ہے۔زندگی کاتواعتبار کسی دور میں نہیں تھا۔اب کے تو جو شکوک و شبہات والا اعتبار تھا کہ چلو گذرہی جائے گی۔ لیکن اب تو وہ بھی گذرتی نظر نہیں آتی۔جانے کسی پل کیا ہوجائے۔ عام آدمی کو شاید پتا نہ ہو۔ مگر جو حساس ہیں وہ اُداس ہیں ان سے جیا نہیں جا رہا۔اگرسوشل میڈیا کی جانب بڑھتے ہیں کہ کچھ تفریح حاصل ہو مگر وہاں تو ایکسیڈنٹ ہیں اور خون خرابہ ہے۔کیا یہ ہمارا معاشرہ ہے۔کیا ہم نے اسی طرح رہناہے۔جب ذہن مستقبل کی جانب رخ کرتا ہے تو ایک آہ سی دل میں اٹھتی ہے۔جانے ہمارا قبلہ درست ہوگا تو کب ہوگا۔شاید سو یا دو سوسال اور بھی لگ جائیں۔ جب تبدیلی اپنا چولا بدل کر اور نظام اپنا سراپا تبدیل کئے ہمارے دروازوں پر دستک دینا شروع کر دے۔کیونکہ فی الحال تو نظر نہیں آتا کہ اپنے آپ کو پڑھا لکھا معاشرہ کہنے والا ماحول تبدیلی کے سنگ کوئی آہنگ پیش کرے۔ جس کی خوبصورتی پر ہمیں ناز ہو۔جو پیارے سوشل میڈیا سے وابستہ نہیں جن کو شوق نہیں یا میڈیاجن کی ضرورت نہیں وہ تو شاید آرام سے ہو ں مگر وہ جوان بھول بھلیوں کے عادی ہیں اورایسے کہ موبائل کے جامِ جمشید کے بغیر جن کاگذارا نہیں۔جن کو دیکھنا بھی ہے اور پڑھنا بھی ہے اور مزید ستم یہ کہ سوچنا بھی ہے۔وہ کیا کریں۔ کہاں جائیں۔ خبریں آتی ہیں۔خبریں تباہیوں اور بربادیوں کی داستاں ہیں۔آخر ہم نے دوسری ترقی یافتہ قوموں کے برابر کب جاکر کھڑے ہوناہے۔کب ہم بچوں کیلئے وہ رزق لے کرگھر لوٹیں گے جس میں کشادگی ہو۔وہ روٹی پانی جو مہنگے داموں نہ خریدا گیا ہو۔ سوچتے ہیں توکلیجہ منہ کوآتاہے کہ اب اگر یہ حال ہے تو آگے کیا حال ہوگا۔ اب اگر گرانی ہے اور آمدن نہیں ہے تو کل کیا ہوگا۔ مروت اور حسن اخلاق کا تو جنازہ نکل چکاہے۔ اب وہ تاثر وہ شکل اور وہ چہرہ جو خوبصورت تھا پرخراش ہو چکا ہے۔اب ان داغوں کو جتنا دھونا ہے وہ رسک ہے۔کیونکہ بعض داغ دھونے کی صورت میں خوبصورت جاموں پر اور بھی پھیل جاتے ہیں اور کپڑوں کومزید آلودہ کر دیتے ہیں۔اس طرح کی زندگی توسزا ہے۔”زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے۔جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں“۔دیکھا جائے تو معاشرے کا ہر فرد اپنی جگہ اہم ہے اور اس کا انفرادی رویہ بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے سوشل میڈیا پر معاشرے کا جو چہرہ نظر آرہا ہے وہ ہم سب مل کر بناتے ہیں اور اگر ہم سب یہ عزم کریں کہ ہم نے خوبصورت اور حسین چہرہ بنانا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرے میں موجود اچھے کرداروں اور خوبصورت رویوں کو ہم سامنے لائیں کیونکہ یہ تو آنکھ کا کرشمہ ہے کہ جس نظر سے دیکھے اسے وہی کچھ منظر کے طور پر موجود ملے گا۔