مہنگائی اور اعداد وشمار۔۔۔۔

وفاقی ادارہ شماریات کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ (جولائی دوہزاراکیس) کے دوران مہنگائی کی شرح میں ’کمی‘ ہوئی ہے جسے اگرچہ معمولی قرار دیا گیا ہے کہ لیکن عوام کے نکتہئ نظر سے دیکھا جائے تو مہنگائی میں کمی کی شرح اِس حد تک ”معمولی“ ہے کہ اِس کا احساس تک نہیں ہوا ہے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ مہنگائی میں اضافہ کئی گنا جبکہ کمی واجبی انداز میں ہوتی ہے اور اب جبکہ کورونا وبا کی چوتھی لہر کے دوران ملک گیر ’لاک ڈاؤن‘ نافذ کرنے سے متعلق فیصلہ زیرغور ہے تو کاروباری سرگرمیوں میں کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے اقدامات کی اشد ضرورت ہے جس سے مہنگائی میں کمی صرف اعدادوشمار کی حد تک نہیں بلکہ محسوس ہونے کی حد تک ہر عام آدمی (ہم عوام) کی اکثریت کو محسوس ہونی چاہئے۔وفاقی ادارہ شماریات ملک بھر میں ہفتہ وار‘ ماہانہ اور سالانہ بنیادوں پر مختلف اشیا کی قیمتوں کے اعداد و شمار جاری کرتا ہے۔ گزشتہ ماہ (جولائی دوہزاراکیس) سے متعلق جاری کردہ اعدادوشمار سے بھی اِس نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا کہ ملک میں مجموعی طور پر اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے یا اضافہ! جولائی سے متعلق مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افراطِ زر (مہنگائی) کی شرح 8.4 فیصد رہی ہے جو ماہ جون کے مقابلے میں 1.3 فیصد کم ہے۔ جون میں مہنگائی کی ماہانہ بنیاد پر شرح 9.7فیصد تھی۔ جولائی پر ختم ہونے والے مالی سال کے دوران مجموعی طور پر مہنگائی کا تناسب 8.9فیصد رہا جبکہ اس سے پچھلے مالی سال میں یہ شرح 10.74 فیصد تھی۔ قابل ذکر ہے کہ گزشتہ مالی سال (2020-21ء) میں مہنگائی کی شرح ایک موقع پر گیارہ فیصد سے تجاوز کر گئی تھی تاہم اِس میں بتدریج کمی ہو رہی ہے اور اگر چند ماہ میں ہونے والے مہنگائی کی مجموعی کمی کو دیکھا جائے تو یہ قریب تین فیصد یعنی 2.7فیصد کمی ہے۔ یہ سب حکومتی اعداد و شمار ہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ ان اعداد و شمار کی تصدیق اشیائے ضروریہ کی قیمتوں اور عام آدمی کے مالی مصائب میں کمی سے ہوتی ہے یا نہیں!؟اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کی جانب سے کئی امدادی منصوبوں پر عملاً کام جاری ہے‘ جس سے نہایت غریب طبقہ مستفید ہو رہا ہے لیکن حکومتی فیصلہ سازوں کو اُس متوسط طبقے (سفید پوشوں) کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا جسے مہنگائی کے باعث اپنی آمدن و اخراجات میں توازن رکھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان بہت سے ایسے مسائل میں گھرا ہوا ہے جن کا حل فوری طور پر فراہم نہیں کیا جاسکتا  اور اس سب سے نکلنے کیلئے بہت زیادہ وقت اور منصوبہ بندی کے علاوہ ملک کے مختلف طبقوں کا بھرپور تعاون بھی درکار ہے لیکن عوامی مسائل میں کمی لانے کیلئے کچھ تو ایسے اقدامات میں کئے جانے چاہئیں جنہیں دیکھ کر عوام کو اندازہ ہو کہ حکومت واقعی ان کے مسائل حل کرنے کیلئے سنجیدہ ہے۔ سال دوہزاراٹھارہ میں عوام نے ماضی میں وفاق کی سطح پر تین تین بار حکومت بنانے والی دو بڑی سیاسی جماعتوں کو مسترد کرتے ہوئے تحریک انصاف کو اس امید پر حکومت سازی کا موقع فراہم کیا تھا کہ وہ سابقہ حکمرانوں کی روش سے ہٹ کر عوامی مسائل حل کرنے کیلئے قرار واقعی سنجیدہ کوششیں (عملی اقدامات) کریں گے۔ اب ’پی ٹی آئی‘ کے اقتدار کا 60فیصد دورانیہ گزر چکا ہے اورعوام کے لئے عملی طور پر کچھ کرنا  ہوگا۔ کورونا وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کے  ساتھ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ غربت اور بدعنوانی جہاں ساتھ ساتھ چل رہے ہوں‘ وہاں اصلاحات کے نتائج (بہتری) فوری طور پر ظاہر ہونا عملاً ممکن نہیں‘ اِس لئے خواہشات کے مقابلے حقیقت اور اُن زمینی حقائق کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے‘ جو عام آدمی کی معاشی مشکلات سے متعلق ہیں۔