وہ دور بھی تھا جب پاکستان کی قومی ہاکی ٹیم کے پاس پانچ عالمی کپ تھے۔ یہ گرین شرٹس کے عروج کازمانہ تھا۔ مگر عروج کے تعاقب میں زوال بھی ہوتاہے۔جومسلسل اس کاپیچھا کر کے اس کوڈھانے کی کوشش کرتاہے۔اور کامیاب ہو جاتا ہے۔اب توہاکی کا چلن نہیں رہا۔اس زمانے کی ہاکی کی ہر اونچ نیچ سے موجودہ زمانے کے زندہ معاشرتی کردار اب تک واقف ہیں۔اب تو تعلیمی اداروں میں ہاکی ختم ہو چکی ہے۔ جس کی وجہ سے ہاکی اوپرنہیں آرہی۔ پھرکرکٹ کا جن اور جنون سر چڑھ کر بول رہاہے۔ایسے میں پاکستان کا قومی کھیل ہاکی کہیں دور جا پڑا ہے۔ گلی محلوں اور سڑکوں پر چھٹیوں کے دنوں میں لاک ڈاؤن وغیرہ میں جب سڑکیں سنسان ہوتی ہیں تو صرف اور صرف کرکٹ ہی سڑکوں پرنظر آ جاتی ہے۔کھیلنے والے نہیں دیکھتے کہ کسی راہگیر کو گیندلگ جائے۔ کسی کی آنکھ کو پھوڑ دیں۔ سب حادثوں کے ہونے کے باوجود یہ جنون ختم نہیں ہورہا۔ بلکہ اس کھیل کو ہر چڑھتے دن کے ساتھ اور بڑھاوا مل رہاہے۔ہاکی تو رخصت ہوگئی۔ ا ب کوئی کرشمہ ہو سکتا ہے کہ ہاکی کو دوبارہ سے اس وطن میں کم سے کم رواج ہی مل پائے۔ عالمی کپ کی تو بات ہی چھوڑیں۔ لوگوں کے دلوں میں ہاکی کی محبت کودوبارہ انسٹال کرنا بہت گراں ہے۔کیا زمانہ تھا جب اولمپک چیمپئن شپ، عالمی ہاکی کپ، ایسنڈا ہاکی کپ، چیمپئن ٹرافی، جونیئر ورلڈکپ پانچوں پاکستان کے پاس تھے۔ باہر کے ملک جو زمانہ حال میں ہاکی میں اپنا بڑا نام رکھتے ہیں وہ پاکستان کے کھلاڑیوں کی مووی کو بار بار سلو موشن میں دیکھ دیکھ کر ہم سے ہاکی سیکھتے۔اب وہ وکٹری سٹینڈ پر سب سے اوپر کھڑے ہیں۔ ہاکی میں پاکستان کا عالمی ریکارڈ یہ بھی ہے کہ چار بار عالمی کپ جیتا اور دو بار فائنل کھیلا۔مگر اب وہ زمانے کہاں۔ جب پاکستان کی ہاکی ٹیم کاہر رکن ماہر تھا۔ فارورڈ لائن میں کلیم اللہ، اصلاح الدین، منظور جونیئر،حنیف خان، شہناز شیخ،فلائنگ ہارس سمیع اللہ،اختر رسول تھے۔جب یہ لائن آگے بڑھ کر مخالف کے گول پر رش بناتی تو گول ہونا یقینی ہو تا۔ مگر پنلٹی کارنر میں ایک عرصہ ہماری ٹیم کمزوررہی۔ ہر چند کہ کئی عالمی کپ ان کے پاس تھے۔ مگر پنلٹی کارنر کی ہٹ لگانے والا کوئی نہ تھا۔ مگر ہالینڈ کے پاس جو کھلاڑی تھا۔وہ ا ن کو جتوا دیتا تھا۔ اس کی ہاکی گیند سے ٹچ ہوتی تواسی لمحے بعد میں ٹک سے آواز آتی اور گیند گول کیپرکے پیچھے سیدھا تختہ سے ٹکراجاتی۔ مگر بعد میں ہمارے ہاں سہیل عباس آ گئے جنوں نے پنلٹی کارنر میں مہارت حاصل کرلی اور گول پہ گول کر کے ڈھیر لگا دیئے۔ اس وقت بھی ان کا 348گولوں کا پاکستانی ریکارڈ موجودہے۔پھر بعد میں اور کھلاڑی آئے جنھوں نے قومی ہاکی ٹیم کو مزید مضبوط کیا۔حسن سردار انھیں میں ہیں۔جو بعد میں کپتان بھی بن گئے اورمنیجر بھی۔ حسن سردارجب قومی ٹیم کا حصہ بننے والے تھے۔اس سے پہلے پشاور یونیورسٹی کے کیمپس کے اندر ایک ہاکی گراؤنڈ میں ٹیم کے ہمراہ آئے۔ یہاں کوئی سائیڈ میچ تھا۔ میں نے سنا تو سائیکل اٹھائی اور اندرون شہر سے سیدھا گراؤنڈ کی باؤنڈری لائن کے پاس سائیکل کے سمیت اور بہت کم لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ وہاں اصلاح الدین اور ہاکی فیڈریشن کے چیف بریگیڈیئر عاطف بھی کھڑے تھے۔ کوئی دہشت گردی نہ تھی کوئی روک ٹوک کوئی ناکہ بندی نہ تھی۔ شاید 1980 سے پہلے تھا۔ حسن سردار نے گر کر ایک گول کر دیا۔میں سن رہاتھا بریگیڈئیر عاطف نے اصلاح الدین کپتان سے کہا دیکھنا یہ لڑکا بہت آگے جائے گا۔ پھر میں نے بھی دیکھا قوم نے دیکھا اور دنیا نے دیکھا کہ وہ سنٹر فارورڈ بہت آگے گیا اتنا کہ مخالف کے گول میں گیندکے سمیت گھس جاتا۔اس وقت ابھی کرکٹ کاجادو نہیں چلا تھا۔ مگر ہر دور کے اپنے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ہر دور اپنے بقچے میں مداری کی طرح اپنے سے جادوئی کمالات لے کر آتا ہے۔جو گاہے گاہے تماش بینوں کی آنکھوں میں نظارہ بن کر پیوست ہو جاتے ہیں۔اس وقت پاکستا ن کودنیا جانتی ہی نہ تھی کہ اس نام کا ملک بھی دنیا میں ہے۔یہ تو ہماری ہاکی نے اس ملک کوپوری دنیا میں شناخت دلوائی۔اب ضرورت ہے کہ ویسی ہاکی کو پھر سے فروغ دیا جائے۔ ہاکی کے کھلاڑی تو ہیں اور سکولوں کالجوں میں اگرکھیل کو فروغ دیا جائے تو ممکن ہے کہ ہاکی کو وسعت مل سکے۔کیونکہ بنیادی نرسری تو یہی تعلیمی ادارے ہیں جہاں سے اچھے کھلاڑی کھیل کر اوپر آتے ہیں۔ہمارا زمانہ تھا تو ہم سکول میں تھے۔تب بہ یک وقت ہم ہاکی ٹیم میں بھی تھے اور کرکٹ کی ٹیم میں بھی کھیلا کرتے تھے۔ مشن ہائی سکول کوہاٹی دروازہ پشاور شہر میں ہمارے منیجر اور ہاکی کوچ استاد فرمان تھے۔وزیر باغ میں ان کے ہمراہ جاتے اور وہاں ہاکی کے میچ کھیلتے۔ینگ ایج تھی۔میدان میں سمیع اللہ کی طرح فلائنگ ہارس بن جاتے تو کوئی روکنے والا نہ تھا۔استاد فرمان ریفری بھی تھے سیٹی کو ہونٹوں میں دبائے ساتھ ساتھ دوڑتے۔سب دوڑرہے ہیں۔خواہ گراؤنڈ کے اندر ہوں یا باہر۔خواہ گیند کے پیچھے دوڑیں یا کسی مقصد کے پیچھے۔