افغانستان سے اکتیس اگست تک اپنی اور اتحادیوں کی افواج نکالنے کے اعلان کے بعد امریکہ نے عراق سے بھی سال کے آخر تک اپنی لڑاکا فوج نکالنے، وہاں جنگی مشن ختم کرنے اور آئندہ صرف عراقی افواج کی تربیت، مشاورت اورداعش کے خلاف درکار مدد فراہم کرنے تک محدود رہنے کا اعلان کیا ہے۔تو کیا اس اعلان سے عراق کی زمینی صورتحال میں کوئی تبدیلی آئے گی؟عراقی حکومت بھی کہہ رہی تھی عراقی فوج اپنی سرزمین کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس لیے اب امریکی فوج کی ضرورت نہیں رہی ہے تاہم وہ چاہے تو انسداد دہشت گردی مقاصد کیلئے تربیت، مشاورت اور مدد جاری رکھ سکتی ہے۔ یاد رہے دونوں ملک اس سال اپریل میں امریکی فوج کے مشن کو تبدیل کرنے پر متفق ہوئے تھے اور امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ امریکہ اپنی فوج یہاں سے نکال لے گا لیکن تب فوج کے انخلا یا مشن کی تبدیلی کا نظام الاوقات سامنے نہیں آیا تھا۔مگر قرائن بتا رہے ہیں کہ انخلا کی بجائے محض عراق میں متعین امریکی فوجیوں کے مشن کی نوعیت تبدیل کی گئی ہے اور در حقیقت کوئی امریکی فوجی واپس طلب نہیں کیا جارہا۔امریکہ خطے میں اپنی موجودگی کو ضروری سمجھتا ہے۔ اس مقصد کیلئے خلیج کے تمام چھ ممالک میں اس کے فوجی اڈے موجود ہیں۔ امریکہ میں کچھ لوگ انخلا کے حامی ہیں مگر ساتھ ہی وہ نہیں چاہتے عراق امریکہ کے ہاتھ سے نکل جائے۔ اس لئے امریکہ مکمل انخلا کی بجائے اپنی کچھ فوج عراق میں باقی رکھنا چاہتا ہے تاہم ابھی واضح نہیں کہ کتنے فوجی وہاں نئے مشن کیلئے عراق میں موجود رہیں گے۔ بظاہرعراق میں کچھ امریکی فوجیوں اور ماہرین کو رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ عراق میں امریکی مداخلت برقرار رہے گی۔ امریکی صدر بائیڈن سمجھتے ہیں امریکہ کو مشرق وسطی سے ہاتھ کھینچ کر روس اور چین کے بڑھتے ہوئے عالمی اثر و رسوخ کو روکنے پر زیادہ توجہ دینی چاہئے تاہم کہاجاتا ہے امریکہ عراق سے جانے پر مجبور ہوا ہے نہ کہ اپنا فوجی مشن مکمل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔امریکی فوج کی موجودگی یہاں متنازعہ ہے۔ امریکی صدر اور عراقی وزیراعظم کے اس تزویراتی معاہدے، جس پر عراقی پارلیمنٹ بحث کرے گی مگر اس کی منظور شدہ قرارداد پر عمل کرنا لازمی نہیں ہو گا، کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عراق میں 2003 میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے 160000 فوجی تھے مگر اب صرف 2500 امریکی فوجی اور کچھ سپیشل فورسز ہیں جو داعش کا مقابلہ کرنے میں مقامی فوج کی مدد کرتے ہیں۔ تاہم امریکی افواج کو یہاں مزاحمت اور خطرات کا سامنا ہے۔ جنوری 2020 میں ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کو عراقی ملیشیا کے لیڈر ابو مہندی سمیت بغداد ائرپورٹ کے قریب مارا گیا تو اس کے بعد عراقی پارلیمنٹ نے بھی عراق سے امریکی فوج کے انخلا کے حق میں قرارداد پاس کی تھی اور عراق میں امریکہ کے خلاف عوامی وسیاسی نفرت میں اضافہ ہوا تھا۔امریکی اوراتحادی افواج 2003 میں عراق پر حملہ آور ہوئی تھیں جب امریکی صدر جارج بش نے عراق پر وسیع تر تباہی کے ہتھیار رکھنے اور بین الاقوامی دہشتگردی کے جھوٹے الزامات لگائے تھے۔بش نے عراق کو آزاد اور پرامن بنانے کا وعدہ اور دعوی کیا تھا مگر امریکی قبضے کے بعد عراق میں کشیدگی عروج پر پہنچ گئی اور خانہ جنگی برپا ہوگئی۔ عراق سے امریکی فوج واپس بلانے کیلئے امریکہ سمیت دنیا بھر میں بڑے مظاہرے ہوئے اور امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں نے بھی امریکی فوج واپس بلانے کا تقاضا کیا۔ چنانچہ 2011 میں امریکی افواج عراق سے چلی گئیں مگر وہاں چند شہروں پر داعش کے قبضے کے بعد عراقی حکومت کی درخواست پر امریکہ نے 2014 میں دو بارہ فوج بھیج دی۔یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ عراق میں امریکی فوج کی ضرورت ہے اور یہ کہ اگر امریکہ یہاں سے واپس چلا گیا تو عراقی گروہوں کے درمیان اختلافات خانہ جنگی پر منتج ہوسکتے ہیں۔