ہمارا دفتری نظام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دفاتر میں پہلے کون سا کام ہوتا تھا۔جو اب کورونا کارن پچاس فی صد حاضری کم ہوجانے پر سو فی صد ہوگا۔ہاں جو پرائیویٹ سیکٹر ہے وہاں ضرور کام ہوتاہے۔ اگرچہ حاضری آدھی مزید کم کر دی گئی ہو۔ راز یہی ہے کہ نجی دفاتر میں نوکری کا چلتے رہنا اہلکار کی کارکردگی پر ہے۔دفاتر میں جا جا کر اپنا تو دل جیسے پک سا گیاہے۔ خدا نہ کرے جب کوئی کام درپیش ہو تو تین دن پہلے سے دل دھڑکی لگ جاتی ہے۔جب کسی دفتر میں اس کام کو لے کر پہنچو تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے جس بھائی بند نے کام کرنا تھا وہ تو چھٹی پر ہیں۔اس وقت تین روزپہلے دل کے دھڑکنے کا سبب یاد آنے لگتاہے۔پھر دفاتر کون سے قریب ہیں۔ شہر پھیلنے لگاہے اور راستے بل کھاتے ہوئے سانپ کی طرح پیچیدہ ہوتے جاتے ہیں۔گرمی ہے۔پھر ان دنوں جہاں بیٹھے ہوں وہاں بیٹھے رہیں تو اچھا لگتاہے۔کیونکہ سر پر پنکھا تولگاہوتاہے۔ہر چند کے کسی بھی لمحے واپڈا کی کارستانی کے سبب سر پر چلنے والی یہ ہوابند کی جاسکتی ہے۔پھر ایسی حالت میں اٹھ کر کسی دفتر میں جو کام پھنسا ہو اس کو وا گذار کرنے کیلئے جانا کتنا اوکھا لگتاہے۔کچھ لوگ تو اپنی چار پائے کی گاڑی میں سوار ہو کرجاتے ہیں۔ پھر اکثر تو منی بس میں سواری کر تے پہنچ جاتے ہیں۔ا ن کو مین روڈ سے ہٹ کر پیدل بھی چلنا پڑتاہے ٹانگیں پک جاتی ہیں۔وہاں دفتر میں پہنچو تو جس سے کام ہو اس کی کرسی خالی ہوتی ہے۔پوچھو کہاں گئے۔ اس پر اس کمرے والے کہتے ہیں کہ ابھی نیچے والی منزل میں گئے ہیں۔ ان کی بات پر اس لئے یقین آتاہے کہ اس خالی کرسی پران کی چادر پڑی ہوتی ہے۔مگر غورکریں تو چادر اس کا ثبوت ہے کہ وہ چھٹی کے وقت گھر جانے سے پہلے یہاں ضرور آئیں گے سوانتظار کرنابیکار ہے۔چپ کرکے گھرلوٹ جائیں تو بہتر ہوگا۔ کیونکہ اس کی اس غلط ادا پرپردے ڈالنے والے ان کے ساتھی وہاں کمرے میں موجود ہوتے ہیں۔وہ آپ سے پوچھیں گے کیا کام ہے۔اس لئے نہیں کہ لائیے میں آپ کاکام کردوں۔ اس لئے کہ آپ نے اپنے آنے کامقصدبتلایا تو وہ آپ کو کوئی میٹھی گولی کوئی لالی پاپ دیں گے۔کہہ دیں گے وہ اہلکار آ بھی جائیں تو بڑے صاحب جو نہیں ہیں۔آپ پوچھیں گے صاحب کب آئیں گے۔اس پر آپ کو بتلایا جائے گا کہ ان کے گھر میں بیماری ہے وہ آج چھٹی پر ہیں۔حالانکہ ہم بھی اسی حمام کے ہیں اسی گھڑے کی مچھلیاں ہیں۔صاحب نے جمعہ کوچھٹی کر کے ہفتہ اتوار ساتھ ملا کر پھر پیر کو بھی نہیں آنا۔ کیونکہ پشاور میں گرمی بہت ہے۔مگر نتھیا گلی چھانگلہ گلی اور شانگلہ میں تو گرمی نہیں۔وہ تو اپنی سرکاری گاڑی میں ان یخ ککر مقامات کی سیر کو نکل گئے ہیں۔سو ہمارا کام تو سر کھا جائیگا  بالفرض آپ اگلے دن پھر یہاں آگئے تو آپ کو دوبارہ ہفتہ پہلے کے دل کے دھڑکنے کا سبب یاد آجائیگا کیونکہ اس اہلکار کو آپ کی فائل نہیں ملے گی۔ آپ کی درخواست جو آپ نے اپنے دفتر سے یہاں بھجوائی ہوگی اس کوزمین کھاجائے گی یا آسمان نے نگل لیاہوگا۔یہ لوگ آپ کو اوپر بھیجیں گے۔تیسری منزل میں لیٹر وصول کرنے والا بیٹھا ہوگا۔حالانکہ اس کو گراؤنڈ فلور میں ہوناچاہئے۔ آپ کاگھنٹہ بھر ضائع ہوگا۔مگر نائب قاصد کی ڈاک بک چیک کر کے بھی آپ کو اپنے لیٹر کا سراغ نہیں ملے گا۔ آپ سے کہا جائے گا اپنے دفترسے معلوم کریں کہ آیاانھوں نے وہ درخواست ہمیں بھیجی بھی ہے کہ نہیں۔ کیونکہ یہاں تو اس کا کوئی نام پتا نہیں مل رہا۔آپ ہانپتے کانپتے ماتھے پر سے پسینہ پونچھتے اپنے دفتر آئینگے جہاں آپ کام کررہے ہیں۔مگر معلوم ہوگاکہ وہ درخواست اسی تاریخ کو اسی دفتر کو واقعی میں بھیجی گئی ہے۔آپ اپنے موبائل پر وصول کرنے والے کادستخط کافوٹو لے کردوبارہ اسی دفتر جائیں گے۔ بلکہ جانا کیسا آپ کو پتا ہوگا کہ چھٹی میں ڈیڑھ گھنٹہ باقی ہے۔آدھ گھنٹے میں وہاں پہنچ کر بھی کیا تیر مار لیں گے۔ وہ اہلکار تو گھنٹہ پہلے چھٹی کرکے گھر جاچکاہوگا‘آپ وہاں دوسرے دن پہنچیں گے تو دستخط کرنے والے کو ڈھونڈ نکالیں گے۔وہ وصولیابی کااقرار تو کرے گا۔ مگر ذمہ داری سے بری ہوگا۔ وہ کہہ دے گا کہ آپ کی درخواست ساتھ والے کمرے کے سیکشن میں جا چکی ہے وہاں جائیں گے اور متعلقہ اہلکار سے ملیں گے۔ وہ آپ سے آپ کے کیس کے بارے میں اچھی خاصی لمبی بات چیت کرے گا۔بلکہ ایک سوالنامہ تیار ہوگا۔ جسکے جوابات د ے کر آپ کو کہا جائیگا۔آپ ذراانتظار کریں دراصل ہم نے ابھی شہر کے اندرون دفتر سے یہاں شفٹنگ کی ہے۔یہاں ہمیں مہینہ ہوا ہے۔ فائلیں ساری تتر بتر ہیں۔وہ سپرنٹنڈنٹ خود فائلوں کے گھٹے نکال کر زمین پر رکھے گا اور آپ کی پی یوسی ڈھونڈے گا۔اس کے چہرے کاپولی گرافک ٹیسٹ بتلائے گا کہ اس کو یہ لیٹر نہیں مل رہا۔ آپ دیکھتے جائیں گے کڑھتے جائیں گے اوردل مزید دھڑکتا جائے گا۔