شادی ہالوں کے دروازوں پر تالے لگا دیئے گئے تو کیا ہوا۔ شہریوں کے گھرتو موجود ہیں۔ یہاں حالت یہ ہے کہ کورونا سے کوئی بھی ڈر نہیں رہا۔ اوپرنیچے گھروں میں بیٹھکیں کھلی ہوئی ہیں۔بڑے گھروں کے سبزہ زار اوپن ہیں۔وہاں شادیاں دھوم دھام سے جاری ہیں، شہروں میں اگر کہیں دھوم دھڑکا سنائی نہیں دے رہا تو مطلب یہ نہیں کہ شادی بیاہ کی رسومات ترک کر دی گئی ہیں۔ بیاہ رچائے جا رہے ہیں اورمہندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ پہلے پہل کورنا سے خوفزدہ تھے اس حد تک کہ سورج کی روشنی میں شہر کی آباد سڑکیں ویران تھیں۔ مگر اب صورتِ حال مختلف ہے۔ دو سال ہونے آئے ہیں کورونا کی وباء کی وجہ سے ملک کی معیشت خراب حا ل ہے۔لوگوں نے اپنی دکان کو سیل مین کے حوالے کرکے گھر میں بیٹھنا شروع کردیا ہے جو پکوڑے بیچتا تھا وہ بھی گلہ مند ہے۔خاص کر مینابازاراور اس قسم کے دوسرے بازاروں میں جو رش تھا نہیں رہا۔ دکاندار ہاتھ پہ دھرے بیٹھے ہیں۔گاہکوں کاانتظار ہے۔گاہک ہیں تو سہی وہ شان وہ آن بان نہیں جو پہلے تھی۔کورونا کی وجہ سے جو لوگ باہرنہیں آتے نہ آئیں۔مگر جو آرہے ہیں انھوں نے ماسک نہیں پہنا ہوتاہے اور نہ ہی سماجی فاصلے کو سامنے رکھتے ہیں۔پھر نہ ہی ویکسین لگانے کی طرف ان کی توجہ ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ان کوویکسین کی طرف لانا بہت مشکل ہو رہاہے۔ویکسین لگانے کے بعد ساری سماجی سرگرمیاں پھرسے لوٹ کر آسکتی ہیں۔ جیسا کہ باہر کے ملکوں میں ویکسین لگا لینے کے بعد کورونا کو ختم تصور کر لیا گیاہے۔ مگر ہمارے ہاں ایس او پیز کی خلاف ورزیاں ہیں۔ساتھ ساتھ بازار بھی مندا ہے۔پھر لوگ گھروں میں ہیں۔مگر کورونا سے ڈر جھجک نہیں۔ابھی بہت سی سمجھ بوجھ حاصل ہونا ہے۔کلاس میں اگر بچے توجہ نہ دیں تو استاد ڈنڈا اٹھا لیتا تھا۔ اب ویکسین کے معاملے میں بھی یہی حال ہے کہ اب جو انتظامیہ نے ڈنڈااٹھایا ہے تو ہر ہسپتال میں ویکسین لگانے والوں نے رش بنانا شروع کر دیا ہے۔شادیاں مگر پھر بھی گھروں میں ہو رہی ہیں۔ گھروں میں مقررہ تعداد سے زیادہ لوگ شادی میں شریک ہوتے ہیں۔ پہلے شادیاں سردیوں میں ہوتی تھیں۔ مگر اب تو گرمیوں میں یہ پر بہار جشن تروتازہ ہے۔لوگ اس سے پیچھے نہیں ہٹتے کہ کورنا کا حملہ نہ ہو جائے۔ اپنا دھڑلے سے شادیوں میں شریک ہیں اور نہ تو ماسک کی پابندی ہے اور نہ ہی قریب قریب رہنے سے کتراتے ہیں۔خوب دھمال مچاتے ہیں۔ہماری قوم میں سمجھ بوجھ کاآنا اور پھر اس کے ذریعے ترقی کا زمانہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا کوہِ گراں ہے۔اس تماشے کیلئے ابھی کم از کم سو سال اور بھی درکارہیں۔ تب کہیں جا کر اس قوم کے شعور کی بیداری حاصل ہوگی۔ مگر وہ بات کہ ”کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک“۔ وہ ترقی کا زمانہ دیکھنے والے خوش قسمت ہوں گے۔ابھی توہم خود اپنی موجودہ نسل کو تباہی کے گڑھے میں گرا رہے ہیں۔پھر آئندہ کی اگلی نسل کو بھی اسی موجودہ نسل کی سوچ کے سہارے پہلے سے بربادی میں دھکیلنے کے لئے گڑھے کھودے جا رہے ہیں۔ پہلے تو پولیوکے قطروں پر شکوک و شبہات تھے اور اب کافی حد تک دور ہو چکے ہیں۔شہری پولیو کے قطرے پلوا رہے ہیں۔ شاید آنے والے دنوں میں یہ لوگ ویکسین کے جھوٹ موٹ خطرے کو بھی ٹال دیں گے۔ ویکسین کو ضروری جان کر ویکسین لگائیں گے۔ ایک بندے نے کہا مجھے تو کورونا نہیں ہے۔پھر مجھے کیوں مجبور کیا جا رہاہے کہ میں ویکسین لگاؤں۔ اس کو میں نے جواب دیا کہ آپ نے اپنے بچوں کو جب وہ پیدا ہوئے تو حفاظتی ٹیکے لگوائے تھے۔ انھوں نے جواب دیا بالکل لگائے تھے۔ میں نے عرض گذاری کہ ان بچوں کو اس وقت کوئی بیماری تو نہیں تھی۔ آپ نے احتیاط کے لئے ٹیکے لگائے تھے۔سو یہ ویکسین بھی تو حفاظت کے لئے لگاتے ہیں کہ کل اگر کورونا کا وار ہوتو اس کو ویکسین کی ڈھال پر روک دیا جائے۔یہ ایک مشکل کام ہے۔جب تک ہمارے عوام کو قائل نہیں کریں گے یہ بات نہیں مانیں گے۔اس بارے پروپیگنڈہ کو روکنا بہت مشکل ہے۔