لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ’بولٹن بلاک‘ پر لگی ستانوے سالہ پرانی گھڑی کی مرمت و بحالی کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے کل پُرزے بیرون ملک سے درآمد جبکہ گھڑی کو چالو (فعال) رکھنے کیلئے کسی ماہر کی خدمات بھی حاصل کی جائیں گی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہر چند برس یا دہائیوں کے بعد مذکورہ گھڑی مرمت ہوتی ہے۔ اِس کے چوری شدہ پرزوں کی جگہ نئے کل پرزے لگائے جاتے ہیں لیکن گھڑی کا چال چلن ٹھیک نہیں ہوتا اور یہی مسئلہ پشاور کے ایک اور گھڑیال کو بھی لاحق ہے جو لیڈی ریڈنگ ہسپتال سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ’گھنٹہ گھر‘ میں نصب ہے۔ مذکورہ دونوں گھڑیالوں کی جگہ الیکٹرانک گھڑیال لگائے جا سکتے ہیں جیسا کہ مئی 2019ء میں مکۃ المکرمہ (سعودی عرب) کے ’مکہ ٹاور‘ میں ’گھڑیالی (کلاک ٹاور) عجائب گھر‘ بنایا گیا تو وہاں مکینکل کی بجائے الیکٹرانک گھڑیال نصب کیا گیا‘ جو اپنی کارکردگی (وقت بتانے کی صلاحیت) اور پائیداری کے لحاظ سے بھی بہتر متبادل ہوتا ہے۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے فیصلہ سازوں سے اُمید ہے کہ وہ ’مکہ ٹاور‘ کے کلاک میوزیم کے تجربے کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک ایسے حل کی طرف مائل ہوں گے جو ضرورت بھی پوری کرے اور وقتی تقاضوں سے ہم آہنگ بھی ہو۔پبلک مقامات پر گھڑیال نصب کرنے کی روایت اُس دور کی نشانی ہے جب گھڑیاں بہت ہی خاص اور قیمتی جنس ہوا کرتی تھیں۔ لوگ بیرون ملک سے گھڑیاں منگواتے اور بالخصوص ہر سال حج یا عمرہ کیلئے جانے والے اپنے ساتھ سوغات میں گھڑیاں‘ ٹیپ ریکارڈر اور حسب مالی استطاعت طلائی زیورات بھی لاتے تھے۔ اُس زمانے میں سائیکل‘ ٹیلی ویژن اور گھڑی کا کسی شخص کے پاس ہونا اُس کی مالی حیثیت و خوشحالی کا بیان ہوتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب درست وقت معلوم کرنے سے زیادہ اندازے سے کام چلایا جاتا کیونکہ کلائی یا دیوار پر لگنے والی گھڑیاں بہت ہی کم ہوتی تھیں‘ جنہیں فعال (زندہ) رکھنے کیلئے چابی اور مرمت کی ضرورت رہتی اور اِس مقصد کے مختلف گھڑی ساز ہوتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مکینیکل گھڑیوں کی جگہ الیکٹرانک گھڑیوں نے لی۔ اُس دور میں ’سورج گھڑی‘ سے بھی کام لیا جاتا تھا جس کی ایک مثال (نمونہ) خیبر رائفلز میس لنڈی کوتل چھاؤنی میں 1923ء سے نصب ہے جو دنیا کا واحد کام کرنے والا (فعال) ’سن کلاک‘ ہے۔ خیبررائفلز میس کی سیر کیلئے آنے والے سیاحوں کو بطور خاص مذکورہ ’سن کلاک‘ دکھاتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ اِسی قسم کا دوسرا ’سن کلاک‘ جرمنی میں نصب ہے لیکن وہ ناکارہ ہو چکا ہے‘ جس کے بعد سے لنڈی کوتل کے سن کلاک کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا کے دیدنی مقامات میں برطانوی عہد کی اِس یادگار (شاہکار) سے آج بھی درست وقت معلوم کیا جاسکتا ہے لیکن انسانی مزاج سہل پسند ہو چکا ہے اور وقت معلوم کرنا اب محنت طلب نہیں رہا اور نہ ہی خاطرخواہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔ الیکٹرانک ٹیکنالوجی کے عام ہونے میں چین کی مہربانی کا بڑا ہاتھ ہے جس نے کم قیمت آلات عام کئے ہیں اور اِس سے جہاں کم آمدنی رکھنے والوں کے پاس بھی گھڑیاں آ گئی وہیں موبائل فونز نے رہی سہی کسر نکال دی ہے اور اب وقت دیکھنے کیلئے توجہ کلائی پر لگی گھڑی کی جانب مبذول نہیں ہوتی بلکہ موبائل فون اور کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ استعمال کرنے والوں کی نظریں سکرین کے دائیں جانب نمودار ہونے والے ہندسوں کی طرف مبذول ہو جاتی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ فی زمانہ الیکٹرانک آلات کی مقبولیت و اپنائیت بڑھی ہے اور اگرچہ وقت کی اہمیت کم نہیں ہوئی لیکن وقت معلوم کرنے کے طور طریقوں‘ اطوار تبدیلی ہو چکے ہیں اور اِسی تبدیلی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے بولٹن بلاک پر لگے گھڑیال کو الیکٹرانک آلات سے تبدیل کر دے تو یہ کم خرچ بالانشین عمل ہونے کے ساتھ مستقبل کے اندیشوں کا بھی مستقل علاج ثابت ہوگا۔ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ترقیاتی کاموں کا مطلب علاج معالجے کی سہولیات میں اضافہ اور مریضوں کو مفت ادویات کی فراہم پر ہونی چاہئے۔ علاج کی سہولیات میں بہتری اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی جانب سے فراہم کی جانے والی خدمات میں پشاور کے شہری علاقے (اربن) کی آبادی (مردم شماری کے مطابق بیس لاکھ سے زائد) کے تناسب سے اضافہ ہونا چاہئے۔ اگر صوبائی فیصلہ سازوں کی توجہات مرکوز ہیں تو اُن کے عرض ہے کہ 1990ء میں ”محترمہ بینظیر بھٹو ہسپتال“ کے قیام کی منظوری اُس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو نے اپنے پہلے دور حکومت میں دی تھی تاہم اُن کی حکومت آئینی مدت سے قبل تبدیل ہونے کی وجہ سے جہاں دیگر منصوبے روک دیئے گئے وہیں بینظیر بھٹو ہسپتال کا قیام بھی مؤخر کر دیا تھا۔ جب محترمہ دوسری مرتبہ وزیراعظم بنی تو اپنے اِس دوسرے دور (1993-96ء) میں اُنہوں نے پشاور موٹروے کے قریب 100 کنال اراضی حاصل کی جس کے مالک کی جانب سے انکار اور عدالتی چارہ جوئی کے بعد یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا۔2008ء میں جب عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی نے خیبرپختونخوا میں حکومت قائم کی تو بینظیر ہسپتال کا منصوبہ پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی گئی اور ہسپتال کی مذکورہ اراضی پر جن لوگوں نے قبضہ کر کے گھر بنا لئے تھے اُن سے اراضی بھی واگزار کرا لی گئی۔ مئی 2012ء میں ایک نجی مشاورتی ادارے سے معاہدہ کیا گیا جس نے ہسپتال کے تعمیراتی ڈیزائن و خوبیوں کو طے کرنا تھا۔ جولائی 2012ء میں فیصلہ ہوا کہ ہسپتال کو 500 کی بجائے 1000 بستروں پر مشتمل بنایا جائے گا اور اِس کی حیثیت جنرل ہسپتال سے تبدیل کر کے تدریسی ہسپتال کی جائے گی اور یوں سینکڑوں لاکھ روپے تک منصوبہ بندی (پی سی ون) پر خرچ ہوئے اور 2013ء میں ’پی سی ون‘ کی وفاقی حکومت نے منظوری بھی دے دی جس کے لئے اُس وقت 13 ارب روپے مختص کرنے کا اعلان اور وعدہ کیا گیا تھا لیکن پشاور کو یہ بڑا ترقیاتی منصوبہ نہ مل سکا اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال جیسی بڑی سہولت (1600 بستر) کی علاج گاہ کا خواب آج بھی خواب ہی ہے۔