بدلتی دنیا میں بدلتے رشتے ۔۔۔۔

مشرق وسطیٰ میں سیاسی تبدیلیاں مستقبل کے نقشے کو بڑی حد تک واضح کر رہی ہیں جس میں ممالک ایک دوسرے کے قریب اور دور ہو رہے ہیں۔ اِس منظرنامے پر حاوی عمومی تصور یہی ہے کہ بھارت کا اثر و رسوخ خطے میں مسلسل کم ہو رہا ہے اور بھارت کی جگہ چین کے اثرورسوخ میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ پاکستان کے نکتہئ نظر سے یہ حوصلہ افزا صورتحال ہے کیونکہ چین و پاکستان یا پاکستان و چین دو نہیں ایک فریق ہیں۔ موجودہ حالات میں عوامی جمہوریہ چین اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان جامع سٹریٹجک شراکت داری کے معاہدے کی رپورٹ کے منظرعام پر آنے کے چند دن بعد ایران نے خود چابہار منصوبے کیلئے ریلوے لائن رابطے کے آگے بڑھانا شروع کر دیا تھا جبکہ قبل ازیں بھارت بھی اس منصوبے کا حصہ تھا۔ مذکورہ ریلوے لائن کو ایران کے چابہار سے افغانستان کے صوبے زرنج تک بچھانے کا منصوبہ ہے۔ افشا (لیک) ہونے والی معلومات کے مطابق جس منصوبے پر ایران چین کے ساتھ کام کر رہا ہے اس کی مالیت چارسو ارب ڈالر ہے۔ نومبر دوہزار اُنیس میں ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے بھارت کی خواتین صحافیوں کے ایک وفد سے ملاقات میں کہا تھا کہ ” آپ کے پاس دباؤ کو مسترد کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے کیونکہ امریکہ دھمکاتا رہتا ہے اور بھارت امریکہ کے دباؤ میں ایران سے تیل نہیں خریدتا۔ اگر آپ (بھارت) مجھ (ایران) سے تیل (پیٹرولیم مصنوعات) نہیں خریدتے تو ہم آپ سے چاول (اجناس) نہیں خریدیں گے۔“  فی الوقت بھارت ایران کے ساتھ دوستی کو بڑھانے میں تذبذب کا شکار دکھائی دے رہا ہے۔سال 1991ء میں جب سے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سوویت یونین ٹوٹ گیا ہے تو اِس سے ایک نئی دنیا نے جنم لیا ہے اور عالمی تعلقات میں ایک نیا موڑ آیا ہے۔ بھارت کے امریکہ کے ساتھ تعلقات استوار ہونے لگے ہیں تو اس نے ہمیشہ بھارت کو ایران کے قریب آنے سے روکا۔ خلیج تعاون کونسل کے ساتھ معاشی تعلقات وجہ سے عرب ممالک کے ساتھ بھارت کے مضبوط تعلقات قائم ہوئے ہیں۔ بھارت کی ضرورتوں کے حساب سے ایران سے تیل کی سپلائی کبھی بھی بہت حوصلہ افزا نہیں رہی۔ اِس صورتحال میں امریکہ نے کہیں دھونس کہیں دھمکی اور کہیں اقتصادی و سیاسی ہتھیار استعمال کرکے کئی ممالک کو ایران کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے سے روک رکھا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کے امریکہ کے ساتھ سٹریٹیجک تعلقات کے باعث وہ خطے کے ممالک کا بااعتماد ساتھی نہیں بن سکتا اور اس کا احساس ایران کو بھی ہے اور دیگر ان ممالک کو بھی جو چین کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔تاہم اس کے باوجود بھارت کی کوشش ہے کہ وہ دو کشتیوں پر سواری کر سکے۔جس کا نتیجہ شاید ہی بھارت کے حق میں آسکے‘اب حال ہی میں بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نئے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوئے‘ جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات تلخی کم کرنے اور گرمجوش تعلقات پھر سے بحال کی ایک کوشش ہے۔ بھارت نے امریکہ کے دباؤ ایران سے تیل کی درآمدات روک رکھی ہیں جبکہ دونوں ممالک کے درمیان چابہار بندرگاہ منصوبے پر اختلافات پیدا ہوئے جبکہ بھارت کی قیادت ایران کے مقبوضہ کشمیر سے متعلق بیان سے بھی ناراض تھی۔ افغانستان سے قدم اکھڑنے کے بعد بھارت کی کوشش ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرے  جس پر پاکستان کو گہری نظر رکھتے ہوئے پیش بندی کرتے ہوئے ایران کے نئے صدر اور اصل فیصلہ ساز قیادت (رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ائی) سے بات چیت کرنی چاہئے۔