بداخلاقی اور غیر ذمہ داری کی انتہا۔۔۔۔۔

کینیڈا کے سابق وزیر برائے شہریت اور امیگریشن کرس الیگزنڈر نے پچھلے دنوں پاکستان اور وزیراعظم عمران خان پر افغانستان میں پراکسی وار کرنے، طالبان کی مدد کرنے اور افغان امن عمل کو سبوتاژ کرنے کا گھسا پٹا الزام لگایا۔ موصوف، جو 2003 سے 2005 تک افغانستان میں کینیڈا کے سابق سفیر اور پھر 2009 تک وہاں اقوام متحدہ کے معاون مشن کے نائب خصوصی نمائندے رہے، گزشتہ دس برسوں سے ان من گھڑت الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور افغانستان میں بھارت کیلئے زیادہ کردار کی وکالت کررہے ہیں۔موصوف کی باتوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ افغانستان کے معروضی حقائق اور معاملات سے مکمل بے خبر ہے اور صرف پاکستان دشمنی میں یہ سب کچھ کررہا ہے؟پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس کے دعوے کو مسترد کیا اور کینیڈین حکام پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف بدنیتی پر مبنی اس مہم کو روکیں۔یہ بات ناقابل سمجھ ہے کہ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو، جو بین المذاہب رواداری و امن اور انصاف کیلئے مشہور ہیں، کے ملک کینیڈا میں اس جیسے ٹیڑھے ذہن کا بندہ پہلے وزیر کیسے بنا اور پھر عدل و انصاف اور حق شناسی و حق پسندی سے عاری ایسے بندے کو افغانستان میں کینیڈا کا سفیر کیسے بنایا گیا اور اسے افغان امن جیسے نازک و حساس مسئلے پر اپنی کج فہمی اور بدگمانیوں کو زبان دینے اور اسے کینیڈا کی ترجمانی کا حق کس نے دیا۔؟پھر اسے اس اقوام متحدہ، جو دنیا کے تمام ممالک کے اقتدار اعلی، مساوات اور احترام کا درس دیتا ہے، کے معاون مشن کا نائب خصوصی نمائندہ کیسے بنایا گیا  درآں حال یہ کہ خطے اور افغانستان میں امن بارے اس کی سوچ یک طرفہ، غیر منصفانہ، گمراہ کن اور واضح طو پر بھارت نواز اور پاکستان مخالف ہے۔یقین نہیں آتا یہ بندہ سفارت کار رہا ہے۔ سفارت کار تو دوسرے ملکوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے سفارتی آداب ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔پاکستان اور اس کی قیادت کے بارے میں ہرزہ سرائی کرنے سے پہلے اس بندے کو چند باتوں پر غور کرنا چاہئے تھا۔ہر ریاست اپنی ساکھ اور شہرت کے بارے میں حساس ہوتی ہے اور پاکستان بائیس کروڑ غیرت مندشہریوں کا وطن ہے جو اپنے ملک اور اس کی قیادت سے محبت کرتے ہیں اور اپنے ملک اور قیادت کی عزت پر کوئی حملہ برداشت نہیں کرتے۔پاکستان افغانستان کا پڑوسی ہے۔ عالمی طاقتوں کے حملوں، دہشت گردی اور خانہ جنگی  سے دوچار ایسے فلیش پوائنٹ کا پڑوسی ہونا  اس کی مجبوری ہے نہ کی مرضی۔ اپنے جغرافیائی حدود کے اندر خود کو وہاں کے برے اثرات سے اور اپنی سالمیت اور اقتداراعلی کو محفوظ کرنا اس کا حق ہے اور یہ حق  ہر ریاست کی طرح اسے بھی  اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت حاصل ہے۔دسمبر 1979 کو روس نے افغانستان پر حملہ کردیا تو اس کا پاکستان ذمہ دار تھا اور نہ ستمبر001 میں امریکہ کے حملے کا ذمہ دار پاکستان تھا۔ افغانستان میں امن پاکستان کی بنیادی ضرورت، خواہش اور کوشش ہے۔ اس نے ہمیشہ افغانستان میں امن عمل کی حمایت کی ہے اور اس کیلئے پوری دنیا کے ساتھ مل کر کوششیں کرتا رہاہے۔ایک خودمختار، جمہوری، متحد، غیر جانبدار اور پر امن افغانستان جتنا پاکستان کیلئے ضروری ہے اتنا شاید ہی کسی اور ملک کیلئے ہو۔ یہ افغانستان کے معاملے میں غیر جانبدار ہے اور وہاں کسی فریق کا حامی نہیں ہے۔ مگر طالبان افغانستان میں جو کچھ کر رہے ہیں اس کا پاکستان ہرگز ذمہ دار نہیں ہے۔ پاکستان کو دوسری اقوام کی چشم پوشیوں، غلطیوں، کوتاہیوں، زیادتیوں اور گناہوں کیلئے ہرگز ذمہ دار ٹھہرایا نہیں جاسکتا۔کینیڈا کے سابق وزیر اور افغانستان میں سابق سفیر کرس الیگزینڈر کو پتا ہے مگر وہ اس حقیقت سے انجان بننے کی کوشش کررہا ہے کہ پاکستان کا اب افغان طالبان پر کوئی خاص اثرو رسوخ باقی نہیں رہا۔ جتنا پاکستان ان کو جنگ بندی اور مذاکرات پرمجبور کرنے کیلئے کرسکا، کرچکا ہے‘پاکستان پورے پاک افغان سرحد پر باڑ لگارہا ہے اور اب تک نوے فیصد سرحد پر باڑ لگ چکی ہے۔ لیکن افغانستان نے اپنی طرف سرحدکی نگرانی کا کوئی انتظام نہیں کیا ہے۔پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جوخدمات فراہم کی اور قربانیاں دی ہیں ان کے بغیر دنیا کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی تھی۔ اس کی ان خدمات کا اعتراف  سب نے کیا ہے۔وزیر اعظم عمران خان کہتے تھے کہ افغانستان کے تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور آج امریکہ اور کینیڈا بعد از خرابی بسیار بھی اس بات کے قائل ہوگئے ہیں۔پھر موصوف کا تعلق کینیڈا سے ہے جہاں کے تین سکولوں سے پچھلے تین ماہ کے دوران بچوں کی تین اجتماعی قبریں دریافت ہوچکی ہیں جن میں ان مقامی غیر سفیدفام قبائلی بچوں کی سینکڑوں لاشیں تھیں جنہیں چرچ اور کینیڈا حکومت کی نگرانی والے سکولوں میں والدین سے جدا رکھا گیا تھا۔ یاد رہے امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وہ چار ملک ہیں جو مقامی آبادی کے قتل عام کے نتیجے میں گورے ممالک کے طور پر وجود میں آئے ہیں اور آج اسی کینیڈا کے کرس الیگزینڈر اصول اور جمہوریت کی پٹی پڑھانے کی کوشش کررہا ہے۔ ٹورنٹو کینیڈا میں 2000 سے 2017 کے دوران سیاہ فاموں کی آبادی آٹھ فیصد تھی لیکن ظلم کے شکار افراد میں سے37 فیصد یہی لوگ تھے۔افغانستان کی تباہی کی بنیاد امریکہ نے رکھی‘ افغان حکومت کو شامل کیے بغیر طالبان سے مذاکرات اور معاہدہ کیا۔ پھر اپنی افواج نکالنے کا اعلان کردیا مگر طالبان سے جنگ بندی نہیں کروائی۔ اور اس سب کچھ میں موصوف کا ملک امریکہ کا ساتھی ہے۔ پاکستان نہیں بلکہ افغانستان نے ہی 1949 سے اب تک بیسیوں بار پاک افغان سرحد کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ وہاں مختلف مواقع پر پاکستان کے سفارت خانے پر حملے ہوئے۔  افغانستان ایک الگ ملک ہے۔ اس کی اپنی افواج اور ادارے ہیں۔ پاکستان افغانستان کی سلامتی کا بالکل بھی ذمہ دار نہیں ہے اس کے باوجود پاکستان نے پاک افغان سرحد پر درندازی روکنے کیلئے آہنی باڑ لگائی، سرحد پر ہزاروں نگران چوکیاں قائم کیں اور پوری پاکستانی سرزمین سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کیلئے کافی محنت کی جبکہ افغان حکومت کے سرکردہ لوگ اپنی طرف سرحد پر نگران چوکیاں تعمیر کرنے کیلئے تیار ہیں نہ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے اور نہ ہی سرحد پر باڑ لگانے کیلئے، کیوں کہ اگر پاک افغان سرحد پر باڑ لگ گئی،نگران چوکیاں بن گئیں اور افغان پناہ گزیں پاکستان سے نکل گئے تو پھر پاکستان پر دراندازی کا الزام لگانے کا موقع ان کے پاس باقی نہیں رہے گا۔