جماعت اسلا می کا ایک اور کاروان انقلا ب آج خیبر پختونخوا کے شہروں اور قصبوں سے گذر رہا ہے چترال سے اس کا آغا ز ہوا 9دن بعد جنوبی وزیرستان میں اس کا اختتام ہو گا‘ علا مہ اقبال کا ایک شعر قاضی حسین احمد کبھی کبھی سنا یا کر تے تھے
کونسی وادی میں ہے کو نسی رہ گذر میں ہے!
عشق بلا خیز کا قا فلہ سخت جاں!
انہوں نے پا کستان کی سیا ست میں ”دھر نا“ متعارف کرا یا 1989ء میں اس وقت کی حکومت کے خلا ف پا کستان کی تاریخ کا پہلا دھر نا دیا یہ کنٹینر کے بغیر دھر نا تھا جس میں تین کا رکن شہید ہوئے اور وسط مدتی انتخا بات کی راہ ہموار ہوئی۔ اسلا می جمہو ری اتحا د و جو د میں آئی اور تاریخ بن گئی آج میں سوچتا ہوں تو ”دھر نے“ کی طرح کاروان انقلاب بھی نیا نا م ہے نیا تصور ہے نیا طریقہ ہے چترال سے وزیر ستان تک 83 مقامات پر جلسے ہو نگے تقریر یں ہو ں گی 9دنوں تک ما حول کو خوب گر ما یا جائے گا۔
پلٹ کر جھپٹنا جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
فو جی نظم و نسق میں لہو گرم رکھنے کووارم اپ کہتے ہیں اس مقصد کیلئے فو جی مشقیں کرائی جا تی ہیں جو امن کے زما نے میں جنگ کا ما حول پیدا کر کے آفیسروں اور جوا نوں کو تازہ دم رکھنے کے کام آتی ہیں کاروان انقلا ب کو جو انوں کی سر گرمی کا عنوان دیا گیا ہے جما عت اسلا می کی ذیلی تنظیم جے آئی یوتھ کے زیر اہتمام یہ سر گرمی ہو رہی ہے امیر جماعت اسلا می سراج الحق کا کہنا یہ ہے کہ ملک کی آبا دی کا 66فیصد نو جوانوں پر مشتمل ہے اور نوجوانوں کی تائید کے بغیر کوئی انقلا ب بر پا نہیں ہو سکتا۔ تین دنوں سے مختلف ذرائع ابلاغ پرکاروان کے مقررین کی جو تقریریں سننے کو مل رہی ہیں ان میں ایک ہی پیغام ہے کہ اُٹھو اور اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نا فذ کر کے دکھا ؤ اس پیغام کو سن کر ذہن میں ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب ”پا کستان کی سیا سی جما عتیں“ کا خا کہ اُبھر تا ہے کتاب میں فاضل مصنف نے پا کستان کی منہ زور بیورو کریسی کا بڑا افسر ہو تے ہوئے ملک کی تما م سیا سی جماعتوں کا تفصیلی جا ئزہ لیا ہے اور جما عت اسلامی کو ایک مکمل سیا سی جماعت قرار دیا ہے جس کا اپنا فنڈ ہے فنڈ کا حساب اور آڈٹ ہے جسکا الگ انتخا بی نظام ہے ہر 3سال بعد انتخا بات ہو تے ہیں زندگی کے مختلف شعبوں کیلئے جس کی ذیلی تنظیمیں ہیں کسانوں‘مزدوروں‘وکیلوں‘ ڈاکٹروں اور اسا تذہ کے ساتھ طلبہ کی بھی ذیلی تنظیم ہے نوجواں کیلئے الگ تنظیم کا اضا فہ اب کیا گیا۔تاہم انتخابی سیاست میں تو ووٹ ہی سب کچھ ہے اور اسے ستم ظریفی کہیے یا کچھ اور کہ ووٹ کے معاملے میں یہ منظم جماعت وہ نتائج حاصل نہیں کرپاتی جس کا مظاہرہ مدمقابل جماعتیں کرتی ہیں۔