پہلے تو ہم روتے تھے کہ ہمارے گھروں میں اور زبانوں کے الفاظ بولے جانے لگے ہیں۔ہماری مادری زبان کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ہمیں اب بھی بہت فکر مندی ہے کہ ہماری مادری زبانیں خطرے میں ہیں۔مگر اس کے بعد انگریزی زبان کا چلن شروع ہوا۔۔ مگریہ سب قدرتی ہے۔ایسا ہوتا ہے۔پھر ہو کر رہتا ہے۔ زبانیں خالص نہیں رہتیں۔اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ ہر قدم ہر مقام پر انگلش کا دور دور ہ ہے۔لوگ اپنے جامے میں سماتے ہی نہیں۔ جس نے انگریزی میں تھوڑی بہت سمجھ بوجھ حاصل کرلی وہ علامہ سمجھا جانے لگا۔ ایسے موقع پر مجھے وہ کوچوان ضرور یاد آتا ہے۔ آج سے تیس سال قبل پشاور میں لندن سے آنے والے انگریزوں کو اپنے تانگے میں انھیں کے بنائے ہوئے مقامات کی سیر کرواتاتھا۔ اس روزانہ سواریوں کے اٹھانے میں اس نے انگریزوں کو آپس میں بدیسی زبان بولتے ہوئے سن سن کر اچھی خاصی مہارت حاصل کر لی تھی۔پھر قاعدہ بھی تو یہی ہے۔اگر کوئی زبان سیکھنا چاہیں اور صحیح طریقے سے سیکھناہو تو ان اہلِ زبان کی بول چال سنیں اور ان سے بولیں۔ہم اگر اردو بولتے ہیں یااپنی مادری زبان کے ساتھ دوسری کوئی علاقائی زبان بولتے ہیں اور سمجھتے ہیں تو اس کامطلب یہ نہیں کہ ہم نے وہ زبان گرامر کی کتابیں پڑھ کر سیکھی۔پھر مسئلہ یہاں تک ہوتا تو چلو کوئی بچت کے آثار تھے۔ مسئلہ تو گھمبیر ہے اور جس پرپریشانی بھی لازمی ہے۔وہ مسئلہ یہ ہے کہ آج کل بچوں نے بغیر کسی گھر کے فرد کے سکھائے گھر میں ٹی وی پر دیگر زبانوں کے کارٹون دیکھ دیکھ کر اسی زبان کے الفاظ اپنی گفتگومیں از خود شامل کر لئے ہیں۔ بعض بچے اتنے چالاک ہو چکے ہیں کہ آن لائن کارٹون دیکھتے ہیں۔ پھر ان روبوٹ والی موویوں میں اتنا انہماک حاصل ہو جاتا ہے کہ ان کرداروں کے بولے ہوئے الفاظ بھی وہ اپنی اردو زبان میں شامل کرتے ہیں۔حالانکہ ان بچوں کے ما ں باپ اپنی مادری زبان بولتے ہیں مگر بچے اردو بول کر اوراس میں کارٹون فلموں میں بولی جانیوالی زبان کا تڑکا لگاتے ہیں۔ ا س بات کو کوئی روک بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ یہ ازخود ہوتاہے۔یہ اصل میں شہر میں ہوتا ہے۔شہر میں زیادہ تر ماحول بناوٹی ہوتا ہے۔لوگ ایک دوسرے کی تہذیب کی نقل کرتے ہیں۔خود کو نئے فیشن کاظاہر کرنے کیلئے لوگ کپڑوں میں تبدیلی لاتے ہیں اوررہن سہن میں پھر اس کے علاوہ ہر چیز ہر عمل میں وہ نئے اور اپ ڈیٹ نظر آنا چاہتے ہیں۔ایسے میں زبان تو کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتی۔ اپنی مادری زبان کو چھوڑ کر دوسری زبان کو بطور فیشن بھی اپنالیتے ہیں۔پھر انھیں ماں باپ سے بچے بھی یہی سبق سیکھتے ہیں۔پھر خدا لگتی بات ہے کہ ہم اس تبدیلی سے نجات بھی تو حاصل نہیں کر سکتے۔ کیونکہ یہ ہمارے ارد گرد کے ماحول میں سرایت کر جاتی ہے۔ٹی وی ہے تو اس پر اور یو ٹیوب ہے تو اس پر بچوں کو دیگر زبانوں کے الفاظ وافر ملتے ہیں۔پھر ان سے متاثر نہ ہونا بچے توکیا بڑوں کے بس میں نہیں ہوتا۔ہم ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ جو چیزغلبہ کر لیتی ہے وہی رعب بھی تو ڈالتی ہے۔اب مادری زبانوں سے ہٹ کر جن زبانوں نے ہمارے منہ سے نکلنے والے الفاظ پر غلبہ کیا ہے ان کے الفاظ خود بخود ہماری زبان سے ادا ہوتے ہیں۔ اس پر شرمندگی کیا اور اس پر پریشانی کیا۔ یہ تو ہوتاہے۔شہر میں چیزیں خالص نہیں ہوتیں۔یہی وجہ ہے کہ شہر کے باہر کی آبادی میں سے کوئی شہر میں اگر کسی کام سے آئے تو اس کو گھر سے سو سوطرح نصیحت کرتے ہیں کہ شہر جا رہے ہو ہر چیز کاخیال رکھنا۔ گاؤں میں جب فضاخالص ہے تو دودوھ بھی خالص ملتا ہے۔جذبے بھی خالص ہوتے ہیں۔مگر شہر میں زبانیں تک خالص نہیں رہتی۔ زبان گاؤں میں اپنی خالص حالت میں موجود ہوتی ہے۔بچے ٹی وی پر غیر ملکی کارٹون دیکھ کر انہی کے الفاظ بولیں تو کیا پریشانی ہے۔اس پر حیرانی ہونا ضروری ہے۔مگر بچوں کو روکا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ ایسا تو ہوناہے یعنی زبان ساکت اور جامد چیز نہیں بلکہ وقت کے ساتھ افزائش پانے اور تغیرات کا شکار ہونے والی چیز ہے اور کسی دوسری زبان سے اثر قبول کرنا کسی بھی زبان کی منفی صفت نہیں بلکہ یہ زندہ رہنے کی نشانی ہے۔