قومی سطح پر ’زرعی ترجیحات‘ کے حوالے سے بیانات تسلی بخش لیکن اقدامات و انتظامات پہلے ہی ناکافی تھے کہ رہی سہی کسر کورونا وبا نے پوری کر دی ہے‘ جس کی وجہ سے کاروبار و معیشت سست روی سے دوچار ہے لیکن سٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق تمام تر مالیاتی چیلنجز کے باوجود بینکوں نے 12 فیصد زائد قرض دیئے ہیں جن میں زرعی قرضے بھی شامل ہیں تاہم بینکوں سے لئے جانے والے قرضوں میں زرعی قرضوں کا تناسب کم ہے اور اختتام پذیر ہوئے مالی سال (دوہزاراکیس) کے دوران دیئے گئے زرعی قرضہ جات کا ہدف حاص نہیں کیا جا سکا! سٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ ’مالی سال دوہزاراکیس میں گزشتہ برس کے مقابلے میں بارہ فیصد قرضے بڑھے ہیں اور اِس طرح دیئے گئے قرضہ جات کی مالیت بڑھ کر تیرہ کھرب چھیاسٹھ ارب روپے رہی تاہم مالی سال کے دوران قرض لینے والوں کی تعداد میں کمی ہوئی۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حکومتی اعلانات کے مطابق مرکزی بینکوں کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ ملک بھر میں قرضوں کی رسائی کو بڑھانے کیلئے قرض لینے والوں کی بنیاد کو وسیع کرنے کی کوشش کریں اور اِس کوشش کا یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ اگرچہ قرض لینے والوں کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن قرضوں کا حجم زیادہ ہوا ہے یعنی تھوڑے لوگوں نے زیادہ قرض لئے ہیں۔پاکستان کی معیشت و معاشرت کا انحصار زراعت پر ہے لیکن اگر زرعی قرضوں کی صورت کاشتکاری میں سرمایہ کاری نہیں کی جائے گی تو اِس سے زراعت میں جدید ٹیکنالوجی متعارف نہیں ہو گی اور روایتی انداز میں کاشتکاری کرنے کی وجہ سے پانی اور رقبے کا زیادہ استعمال کر کے بھی کم پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ سٹیٹ بینک کے مرتب کردہ اعدادوشمار سے عیاں ہے کہ ’زرعی قرضے لینے والوں کی تعداد میں پانچ فیصد کمی دیکھی گئی ہے جو مالی سال دوہزاربیس کے سینتیس لاکھ سے کم ہو کر مالی سال دوہزاراکیس میں پینتیس لاکھ ہوگئی جس کی بنیادی وجہ کورونا وبا کے باعث بینکاری کے نظام تک محدود رسائی ہے۔ مالیاتی قرضوں کا یہ حجم اُنچاس مالیاتی اداروں کی مشترکہ کاوش ہے جو سال کیلئے مقررہ پندرہ کھرب روپے کا اکیانوے فیصد رہا۔ بقایا زرعی قرضوں کا حجم تیس جون تک چھ کھرب اٹھائیس ارب روپے تھا جس میں سالانہ آٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے جو مالی سال دوہزاراکیس کے دوران زرعی شعبے کی مجموعی مثبت صورتحال کی تکمیل کرتے ہوئے 2.77فیصد بڑھا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال دوہزاراکیس کے دوران کمرشل‘ سپیشلائزڈ اور اسلامی بینکوں نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بارہ کھرب ستر ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں بارہ کھرب دس ارب روپے کا قرض دیا اس طرح مقررہ قرضوں کے ہدف کو پچانوے فیصد تک پا لیا گیا تاہم مائیکرو فنانس بینکوں نے بحیثیت گروپ چھوٹے کاشت کاروں کو ایک کھرب بتیس ارب روپے کے زرعی قرضے دے کر تہتر فیصد ہدف پورا کیا۔ مائیکرو فنانس اداروں اور دیہی سپورٹ پروگرامز نے مجموعی طور پر چھوٹے اور پسماندہ کاشت کاروں کو تئیس ارب روپے کے قرضے دے کر ستاون فیصد ہدف پورا کیا۔ اس حوالے سے جاری بیان میں کہا گیا کہ سٹیٹ بینک نے حکومت اور نجی شعبے کے ساتھ مل کر مالیاتی خدمات فراہم کر کے زرعی شعبے کی ترقی اور کمرشلائزیشن کیلئے مربوط کوششیں کی ہیں۔ پالیسی ریٹ کو چھ سو پچیس بیسس پوائنٹس کم کرنے کے علاؤہ سٹیٹ بینک نے بینکوں کو زرعی قرضوں کی ادائیگی میں تاخیر اور ری سٹرکچرنگ کی اجازت دی تا کہ معاشی مسائل پر قابو پایا جاسکے۔ حکومت کے فصل کی قرض انشورنس اور مال مویشی قرض انشورنس سکیمز نے بھی چھوٹے کاشت کاروں کو قرض دینے میں بینکوں کی حوصلہ افزائی کرنے میں اہم کردار ادا کیا تاہم ضرورت اِس امر کی ہے کہ زرعی قرضہ جات میں اضافے اور بینکاری کی سہولیات کو کاشتکاروں تک پہنچایا جائے۔ اِس سلسلے میں مائیکرو فنانسنگ (کم مالیت کے قرضہ جات) کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے جو بڑے پیمانے پر معاشی سرگرمیوں کے فروغ کا ذریعہ بن سکتی ہے کیونکہ اصل ضرورت غذائی خودکفالت کی ہے‘ جس کیلئے پیداواری اخراجات میں کمی اور کاشتکاروں کی مالی برداشت میں اضافہ کرنا ہوگا۔