ان دنوں ارضِ وطن کے چار دانگ عالم میں ہر سو سبز ہلالی پرچم کے پھریرے لہرارہے ہیں۔ بچوں نے ہری جھنڈیاں تھامی ہوئی ہیں۔چند روز بعد چودہ اگست کو یوم آزادی پورے اہتمام سے منایا جانے والا ہے۔بازار سجنے لگے ہیں۔گلی کوچے دکانیں محلے ہر جگہ سبز جھنڈیوں کی بہار ہے۔مگر صرف یوم نہیں منانا اس آزادی کی حفاظت بھی کرناہے۔وہ آزادی جو ہمیں پلیٹ میں رکھ نہیں دی گئی یا بطورِ تحفہ پیش نہیں ہوئی۔ اس کیلئے ہمارے اسلاف نے گراں قدر کارنامے سر انجام دیئے ہیں۔جانوں کی قربانیاں مال و اسباب کالٹ جانا سہاگنوں کے سہاگ کا اجڑ جانا سب کچھ ہمارے ساتھ ہو چکاہے۔مگر ہماری اس نئی نسل کو کچھ معلوم نہیں۔ انھوں نے کتابوں میں پڑھا ہے۔ مگر بہ چشمِ خود دیکھا نہیں۔ وہ بڑے جو کہیں کہیں زندہ ہوں گے۔ مگر زیادہ تر دنیا چھوڑ چلے ہیں۔74سال ہونے کو آئے ہیں۔نئی نسل ان تکالیف سے واقف نہیں ہے۔ہماری نسل کے لوگوں کو تو ان کے والدین نے کچھ نہ کچھ بتلایا ہواہے۔مگر اس وقت ہمارے والدین بھی تو جب پاکستان کی تحریک اُبھری اور دنیاکے نقشہ پر پاکستان کاوجودقائم ہوا اپنے بچپن کی حالت میں تھے۔مگر اس وقت جوان پود کو کچھ معلوم نہیں۔ ان کو چاہئے کہ اس تکلیف کو محسوس کریں جو ماضی میں گزر چکی ہے۔یہ پرچم صرف کپڑے کا ایک ٹکڑا نہیں۔یہ ہماری آزادی اور اتحاد کی علامت ہے۔اس پرچم کی عزت ہمارے اوپر ہر طرح سے لازمی ہے۔جو اپنے جھنڈے کی عزت نہیں کرسکتے وہ اس ملک کی اہمیت کا کیا احساس کریں گے۔بازاروں میں آج کل جھنڈیاں گری پڑی ہوتی ہیں۔پھر جب چودہ اگست گذر جائے تو یہی جھنڈیاں سینکڑوں کی تعداد میں زمین پر گری ہوئی پاؤں میں آتی رہتی ہیں۔ ایسے میں ہمیں ذرہ برابر خیال نہیں آتا کہ کاغذ کی ان سبز و سفید جھنڈیوں کو مٹی میں سے اٹھا لیں۔کیونکہ جھنڈا ہمارے لئے انتہائی قابل احترام ہے۔آج کل نا سمجھی میں حالت اس قدر بری ہو چکی ہے کہ شہریوں نے پاکستانی جھنڈے کے لباس پہنے ہوتے ہیں۔شلوار اور قمیض کے لباس میں ملبوس ہو کر فخر کرتے ہیں۔ پھر سرِ بازار بچوں کے ڈراؤنے ماسک بھی مل رہے ہیں۔جس کے ایک طرف سبز اور دوسری طرف سفید رنگ ہوتا ہے۔یہ تو کسی طرح زیب نہیں دیتا۔ یہ تو بے حرمتی ہے۔جھنڈے کی شکل بگاڑنے کے بارے میں کورٹ نے بھی آرڈر جاری کیا ہے کہ اس کو کسی طریقے سے بھی خراب نہ کیا جائے۔ مگر ہم لوگ کہاں سمجھتے ہیں۔حالانکہ قانون کی کتاب میں دفعہ 123ب میں جھنڈے کی بے توقیری کرنے پر تین سال قید کی سزا ہے۔ اس طرح جھنڈے کی شکل بگاڑنے سے قومی وقار مجروح ہوتا ہے۔حتیٰ کہ جھنڈے پر کسی قسم کی لکھائی بھی منع ہے۔جیسا پاکستانی کرنسی پر قائد اعظم کی شبیہ کو بگاڑنا درست نہیں اسی طرح جھنڈے کو کسی طرح سے خراب کرنا بھی ازروئے قانون جرم ہے۔لاہور ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ جھنڈے کو اس کے اصلی رنگ ہی میں بنایا جائے۔ اس کو وہ سبز رنگ جو اس کا اصل سبزرنگ ہے اسی میں پیش کیا جانا چاہئے۔ کیونکہ سبز رنگ بھی مختلف قسم کے ہیں۔بازاروں میں کاروباری حضرات نے اس جھنڈے کو بھی مختلف رنگ دے رکھے ہیں جو درست نہیں۔بلکہ جھنڈوں پر کارٹون بھی بنا رکھے ہیں۔ اس وقت تو ہماری قوم جوش میں ہے۔چودہ اگست سے قبل بازاروں کی رونقیں دوبالا ہیں۔مگر افسوس یہ ہے کہ آزادی کی اہمیت کو ہم لوگوں میں کم شہری ہیں جو سمجھتے ہیں۔ جو اس آزادی کو اپنے جی اور جان میں سنبھال کر رکھنے والے ہیں۔اس کی قدر کرنے والے پھر اس کی قدر کو سمجھنے والے کم ہیں۔اس پرچم کو زمین پر گرنے بھی نہیں دینا۔ اس پرچم کے اپنے آداب ہیں۔پھر ٹک ٹاکر مخلوق کچھ نیاکردکھانے کی کوشش میں وٹس ایپ اور فیس بک پر بھی ان جھنڈوں کی تصویریں پیش کرتے ہیں۔جو کسی زمین پر یا سبزہ کے پاس چونا ڈال کر ایک پرچم سا پھیلا کر بنا دیتے ہیں۔یہ تو جھنڈے کومٹی میں رولنے والی بات ہے۔جہاں کہیں اگر بے حرمتی کا احساس ہو تو وہاں سمجھدار مہذب اور باشعورشہری کو خود بخود احساس ہو سکتا ہے کہ یہ میرا طرزِ عمل درست نہیں۔”وطن چمکتے ہوئے کنکروں کانام نہیں۔یہ تیرے جسم تیری روح سے عبارت ہے“۔جھنڈا بھی چار گرہ کپڑانہیں ہے۔یہ ہماری خود کی پہچان ہے۔یہ پہچان کہ ہم ایک علیحدہ قوم ہیں۔ہماری پہچان ہمارا یہ پرچم ہے۔بعضوں نے جھنڈے پر چاند تارابھی الٹا کر کے چھاپ دیا ہوتاہے۔بائیں سے دائیں ہونا چاہئے۔مگر پرچم کے ہلال کامنہ بائیں طرف کونیچے جھکاہوتا ہے۔جھنڈا صرف جھنڈا نہیں اس میں بہت باریکیاں ہیں جن کوسمجھنا بہت ضروری ہے۔