مہنگائی‘ سبسڈی‘ ریلیف ۔۔۔۔۔۔

مہنگائی کا بوجھ پہلے ہی کم نہیں تھا کہ اب چیئرمین نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی سبسڈی ختم کرنے کی حکومتی تیاریوں پر کہا ہے کہ عوام کی چیخیں نکلیں گی اور زوردار جھٹکا لگے گا۔ ہم نے قوم کو ذہنی مریض نہیں بنانا بجلی بل کو سادہ بنانا ہے۔ نیپرا میں پاور سیکٹر سبسڈیز کو ٹارگٹیڈ بنانے کے حوالے سے پالیسی گائیڈ لائنز پر ہونے والی سماعت کے دوران حکام پاور ڈویژن نے کہا کہ چھ ما ہ کی کھپت پر پروٹیکٹڈ صارفین کی کیٹیگری بنانے کی تجویز ہے۔ سروے سے پتا چلا ہے کہ 200 یونٹ والے صارفین کے پاس لگژری آئٹمز نہیں ہوتے لہٰذا دو سو یونٹ والے صارفین کو پروٹیکٹڈ صارفین کی کیٹیگری میں رکھا جائے گا۔ حکومت احساس پروگرام کے ذریعے صارفین کو سبسڈی دے گی۔ دو سو یونٹ والے صارفین مستقبل میں بجلی قیمتوں میں اضافے سے بھی مستثنیٰ ہوں گے۔ جب تک چیزیں شناختی کارڈ سے منسلک نہیں ہوتیں اس وقت تک پلان دیا ہے۔ لائف لائن صارفین کی حد 50یونٹ سے بڑھا کر 100یونٹ کررہے ہیں۔ سبسڈی تمام صارفین کی بجائے سماجی و اقتصادی بنیادوں پر دی جانی چاہئے۔وزیراعظم چاہتے ہیں کہ مستحق خاندانوں کو غربت کی سطح سے نکالنے کے لئے تمام حکومتی وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ اطلاعات ہیں کہ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین اور معاون خصوصی عثمان ڈار نے وزیراعظم سے ملاقات کی جس میں رواں ماہ کامیاب پاکستان پروگرام کے آغاز سے متعلق مشاورت ہوئی ہے۔ وزیراعظم نے کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت ریلیف کا دائرہ کار وسیع کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ فلیگ شپ فلاحی پروگرام کے ذریعے کم آمدنی والے خاندانوں کو زیادہ و ترجیحی بنیادوں پر سہولیات اور مراعات دی جائیں۔ مذکورہ پروگرام اور اسی نوعیت کے وزیراعظم کے دیگر منصوبے بہت اچھے ہیں اور ان سے یقینا عوام کو فائدہ بھی پہنچنے کی بھی امید ہے لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ اس پروگرام اور دیگر منصوبوں سے آبادی کا کتنے فیصد حصہ مستفید ہوگا۔ حکومت کو یہ دیکھنا چاہئے کہ صرف گزشتہ تین برسوں کے دوران مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح میں کس حد تک اضافہ ہوا ہے اور اس کی وجہ سے کتنے فیصد لوگ خط ِغربت سے نیچے چلے گئے ہیں اور ان لوگوں کو خط ِغربت سے جلد از جلد نکالنے کیلئے کون سے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ پٹرولیم مصنوعات‘ کھانے پینے کی اشیا اور بجلی کی قیمتوں میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اس سے تو یہ محسوس ہورہا ہے کہ حکومت کے تمام اقدامات دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور فیصلہ سازوں کے پیش نظر رہنا چاہئے کہ آنے والے دنوں میں اگر مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا تو اِسے برداشت کرنے کی سکت عام آدمی (ہم عوام) میں نہیں۔ اِس منتظر طبقے کو بذریعہ یوٹیلٹی سٹورز اشیائے خوردونوش اور بذریعہ بجلی و گیس کے یوٹیلیٹی بلز دی جانے والی سبسڈی کے ذریعے ریلیف دیا جا سکتا ہے۔