جب بہت سے کام ہوں ۔۔۔۔۔

جب بہت سے کام کرنا ہوں تو بعض اوقات ان میں سے ایک بھی ہو نہیں پاتا۔ پھر بندہ ایک آدھ کام کر بھی لیتا ہے۔مگر بہت سستی کے ساتھ۔کیونکہ انسان بنیادی طور کاہل واقع ہوا ہے۔پھر تصور کیجئے اس لاغری کی سی کیفیت میں سر پر ایک نہیں بہت سے کاموں کا وبال آن پڑے تو بندہ کیسے کرپائے۔ وہ لوگ الگ ہیں جن کے ہاں نوکر چاکرہیں وہ تو اس شمار میں ہیں مگراس قطارمیں نہیں۔یہ درمیانے طبقے کی بات ہے۔جن کے ہاں گھر میں چھوٹا بھائی یا بیٹاہوتا ہے جو تمام کام نپٹاتا ہے۔مگر بد قسمت ہوتے وہ گھرانے جہاں سودا سلف لانے کیلئے بھی کوئی لڑکا دستیاب نہ ہو۔ دوسرے شہروں میں بڑے گھرانے والوں کو پروا نہیں۔ وہ تو اپنے پیسے کے زور پر سارے کام کروا لیتے ہیں۔ عام گھرانو ں میں گلی میں کوئی نہ کوئی بچہ موجود ہوتاہے جو چھوٹا موٹا سودا لے بھی آتا ہے۔مگر ایسا بھی ہوتا ہے گلی کے بچے گھر کی خواتین تو چھوڑ مردوں تک کی آنکھوں میں دھول جھونک جاتے ہیں۔ سودا لینے گئے تو واپس نہ آئے۔اگر نہیں آتے تو نہ آئیں مگر پیسے تو واپس دے جائیں۔مگر ایسا بھی تو نہیں ہوتا۔ وہ تو رقم سمیت رفو چکر ہوجاتے ہیں۔ ایک بندے کو دیکھا جو موٹر سائیکل پر سوار ہو کرکسی بچے کے بارے میں دکانداروں سے دریافت کررہاتھا۔کسی نے پوچھا کیا ہوا۔کہنے لگا یار اس کو پیسے دے کر بھیجا ہے کہ روٹیاں پکڑا دے۔مگر آدھ گھنٹہ سے زیادہ ہونے لگا ہے۔اس کانام پتا ہی نہیں۔نہ تو تندرو پر کہیں کھڑا ہے اور نہ تو کسی اور دکاندار کے کاؤنٹر پر پایا جاتاہے۔کسی نے کہا اس کانام کیاتھا۔ بائیک سوار نے جواب دیا کہ یار گلی میں گھوم رہاتھا۔ میں نے گرمی کے مارے بنیان پہن رکھی تھی کہ اب میں سودا لینے جاؤں قمیض پہنوں گا۔ بہترہے اسی کو بول دیتا ہوں۔ پھر دکاندار نے پوچھا اس کا نام کیا ہے۔صاحب جی جواب دیا نام بھی پتانہیں۔پھر سوال ہوا رہتا کون سے گھر میں ہے۔پھر جواب ملا یہ بھی معلوم نہیں۔میں نے دل میں کہا اے نیک انسان تو نے اگر بائیک پر اس کو ڈھونڈنا تھا تو اس کوروٹیوں کے پیسے ہی کیوں دیئے۔ خود جا کر لے آتے۔مگر یہ بات ان کے منہ پرکون کرتا۔کیونکہ اس کی تو بڑی بڑی نوکیلی مونچھیں تھیں۔مگر یہ اس کے جانے کے بعد دکاندار لوگ خود اس گرانڈیل کے پیچھے باتیں بنانے لگے۔کام بہت ہوں اور سست مزاج آدمی کے پلے پڑ جائیں تو وہ خود الٹا بیمار ہو جائے۔ اس طرح کی کیفیت ہو کہ اپنے الگ کام ہوں اور گھر کے جدا ہوں تو بندہ اس حد تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے کہ مارے ہچکچاہٹ کے اس سے ایک کام بھی ہو نہیں پاتا۔اس کنفیوژن میں وہ روزمرہ کی اس پریکٹس سے الٹا چڑچڑا ہو جاتاہے۔یہاں اس کو بھولنے کی بیماری بھی ہوتو وہ خود اپنا سر پیٹ لیتا ہے۔افوہ یار وہ کام رہ گیا۔ کون کون سا کروں۔ کوئی ہے بھی تو نہیں کہ اسے بولوں۔گلی میں کسی بچے کو چھوٹے موٹے کام کا بول دو ں تو دروازے میں کھڑے ہوکرا س کاانتظار کرنے سے اچھا ہے کہ میں خود ہی جاؤں اور مردوں کھپوں۔پھر کاموں میں کام یاد نہ رہیں۔ صرف اس لئے کہ ہرکام ضروری ہو کہ پہلے کسی بھی ایک کوکرنا ہو تو بندہ پزل ہو جاتا ہے۔ بڑے شہرو ں میں تو یہ سروس ہے مگر ہمارے شہر میں نہیں۔ بائیکی نام ہے۔ بائیک سے نکلا ہے۔ گھر سے باہر چھوٹے گیٹ سے سرنکال کر دیکھو کہیں بائیکی والا جاتا ہوگا۔ اس کے پاس موٹر سائیکل ہوگا۔گھر کی خاتون بھی ہو تو اس سے سودا سلف منگوا سکتی ہے۔اس بائیکی والے کو موبائل پر کال کر کے بھی منگوایا جاتا ہے۔پھر وہ دروازے پر سودا دے جاتا ہے۔پھر اپنا محنتانہ وصول کرلیتاہے کام زیادہ ہوں تو بندہ سوچ میں گم رہتا ہے کہ یار اب کیا کروں۔کیونکہ اس میں زیادہ بڑا عنصر وقت کی کمی ہوتاہے۔اگر وقت ہو اور بہت ہوتو پھر جتنے کام ہو ں نپٹائے جا سکتے ہیں۔.مگر وقت نہ ہو تو اس تنگی کے عالم میں آدمی کی سٹی گم ہو جاتی ہے۔پھرکمزور دل حضرات اور ایزی گوئنگ لوگوں کے دل اپنی رفتار سے زیادہ دھڑکنا شروع کر دیتے ہیں۔ہمارے مہربان ہیں کاموں کی فہرست بنا لیتے ہیں۔ پھر گھر میں بیٹھ کر ان کاموں کیلئے سڑک کانقشہ بنا لیتے ہیں۔ایک ترتیب سے کام کرتے ہیں۔ پہلے فلاں جگہ پھر دوسری دکان پر۔اس طرح ایک ہی گو میں جتنے کام ہو گئے ہوگئے۔ مگر اس وقت کڑھن کا احساس زیادہ ہوتا ہے اور سارے کام چوپٹ ہو جاتے ہیں۔جب سڑک پر کوئی راستہ بند کردیا گیا ہو۔پھر کسی موڑ پرٹریفک بلاک ہو تب بھی ان کاموں کے کرنے کے بارے میں شکو ک و شبہا ت یقین میں بدل جاتے ہیں کہ اب ضروری کام ر ہ جائیں گے۔ کیونکہ ان کیلئے سڑک یا راستہ بدلناہوگا۔ پھر جب راستہ بدلا تو ترتیب بدل گئی۔اس لئے جب ترتیب بدل گئی تو ایک انتشار کی سی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔ پھر جلنا کڑھنا مرنا کھپنا ضروری ہو جائے گا۔ اپنے آپ کوسو سوکوسنے دینا ہوں گے۔ کیونکہ بعض کاموں کا تعلق گھڑی کے ٹائم سے بھی ہوتا ہے کہ وہ دکان یا بینک کھانے کے وقفہ کیلئے بند ہو جائے گا۔مجھے جلدی کرنا ہوگی اور ایسے میں خدا نہ کرے کوئی حادثہ بھی ہو سکتا ہے۔