مستقبل قریب میں افغانستان کی خانہ جنگی مزید خون خرابے پر منتج ہوتی نظر آرہی ہے جس سے پورے خطے کا امن و امان شدید متاثر ہو سکتا ہے اس لئے خطے کے ممالک کو افغانستان کی صورتحال پر بجا طور پر تشویش لاحق ہے اور ان کی جانب سے افغانستان میں قیام امن کیلئے اسی تناظر میں جملہ وسائل بروئے کار لانے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ چین اور پاکستان کو اپنے مشترکہ اقتصادی راہداری کے منصوبے ’سی پیک‘ کو فعال کرنے کے لئے علاقائی امن کی زیادہ ضرورت ہے تاکہ سی پیک کے ذریعے علاقائی اور عالمی منڈیوں تک رسائی آسان ہو سکے۔ اس لئے افغانستان کی خراب ہوتی صورتحال پر پاکستان کی طرح چین کا فکرمند ہونا بھی فطری امر ہے۔ اس کیلئے چین کے ساتھ طالبان اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے روابط بھی جاری ہیں جن میں امریکہ کی شیڈول کے مطابق گیارہ ستمبر تک افغانستان سے مکمل واپسی کے بعد کے ممکنہ حالات کے بارے میں تبادلہئ خیال ہو رہا ہے۔ چینی سفیر کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے گزشتہ روز کی ملاقات بھی یقینا اسی سلسلہ کی کڑی ہے اور ترک وزیر دفاع نے بھی اسی تناظر میں پاکستان کے آرمی چیف سے ملاقات کرکے ان سے علاقائی امن و سلامتی کے حوالے سے تبادلہئ خیال کیا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ امریکہ اور افغان حکومت کی اپنی بے تدبیریوں سے افغانستان میں امن و امان کی صورتحال زیادہ خراب ہوئی ہے کیونکہ امن عمل میں انہوں نے طالبان کے ساتھ ڈائیلاگ کے دروازے بند کئے ہیں۔ نتیجتاً طالبان نے امریکی افواج کے انخلأ کے تناظر میں افغانستان میں اپنے اقتدار کیلئے جارحانہ کاروائیوں کا آغاز کر دیا جس کی کابل انتظامیہ کی جانب سے مزاحمت کی گئی تو دونوں فریقین میں گھمسان کا رن پڑتا نظر آیا۔ کابل انتظامیہ امریکی فوجی کمک حاصل کرنے کے باوجود طالبان کی جارحیت روکنے میں ناکام ہے اور افغان سیکورٹی فورسز ہر مقام پر طالبان کے آگے پسپائی اختیار کرتی نظر آرہی ہیں۔طالبان افغانستان کے نوے فیصد سے زائد علاقے پر عمل داری قائم کر چکے ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق 34 میں سے 20 صوبوں پر اُن کا مکمل کنٹرول ہے یعنی نصف سے زائد افغانستان طالبان کے پاس ہے اور دارالحکومت کابل کی جانب طالبان کی پیش قدمی جاری ہے۔ طالبان کی مزارشریف کے قرب و جوار میں پہنچ چکے ہیں جو شمالی اتحاد کا مرکز ہے اور باوجود اس کے کہ امریکہ کی طرف سے طالبان کی ممکنہ حکومت کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا جا چکا ہے اور امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ اپنے ملک کا دفاع کرنا افغان فوج کی ہی ذمہ داری ہے۔ بائیڈن کے بقول امریکہ کا افغانستان میں فوجی مشن اکتیس اگست کو مکمل طور پر اختتام کو پہنچ جائے گا اور افغانستان کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہوگا کیونکہ ہم امریکیوں کی ایک اور نسل کو بیس سالہ جنگ میں نہیں دھکیلنا چاہتے۔اصولی طور پر تو امریکہ کو افغانستان سے اپنی فوجوں کے مکمل انخلأ سے پہلے وہاں عوام کی منتخب نمائندہ حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرنی چاہئے تھی تاکہ وہاں طاقت و اختیار کا کوئی جھگڑا نہ رہتا۔ یہ سارے معاملات امریکہ‘ افغان حکومت اور طالبان کے مابین پرامن ماحول میں مذاکرات کے ذریعے طے ہو سکتے تھے جس سے افغان حکومت نے گریز کیا جبکہ امریکہ نے امن عمل جاری رکھنے کے باوجود افغانستان سے اپنی فوجوں کے مکمل انخلأ کی یک طرفہ طور پر ڈیڈلائن دے دی۔ اس طرح اس نے افغان سرزمین پر مزید بدامنی کی راہ ہموار کردی اور طالبان نے مذاکرات پر آمادہ نہ ہونے والی کابل انتظامیہ کو بزور ہٹانے کی حکمت عملی طے کرکے اس پر عملدرآمد کا باقاعدہ آغاز بھی کر دیا۔ اس وقت طالبان کی جس سرعت کے ساتھ پیش قدمی جاری ہے اس کے پیش نظر افغانستان میں اکتیس اگست سے پہلے طالبان کے اقتدار میں آنے کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ اگر امریکہ اس حکومت کو تسلیم نہیں کرتا تو اس سے یہی مراد ہوگی کہ امریکی انخلأ کے بعد بھی افغانستان میں امریکی عمل دخل جاری رہے گا جو افغان دھرتی میں شورش کو کم کرنے کی بجائے اِس میں اضافہ کرے گا۔یہی وہ ”خدشات و امکانات“ ہیں جو علاقائی امن کے حوالے سے خطے کے ممالک بالخصوص پاکستان کیلئے تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت دفاعی اور اقتصادی ترقی کے معاملات میں چین اور پاکستان کے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ چین اسی تناظر میں سی پیک کو کسی قسم کی گزند نہیں پہنچنے دینا چاہتا جبکہ اس کے ثمرات افغانستان کے امن کے ساتھ وابستہ علاقائی امن کے یقینی بنائے جانے سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں چنانچہ خطے کی تزویراتی صورتحال برادر ترکی اور ایران کے لئے بھی علاقائی امن و استحکام کی متقاضی ہے۔ اس تناظر میں توقع کی جا سکتی ہے کہ پاکستان اور چین کی مشترکہ دفاعی اور اقتصادی حکمت عملی کی بنیاد پر ترکی‘ ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے مفادات بھی مستقبل قریب میں پاک چین ہمالیہ سے بلند‘ سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی کے ساتھ وابستہ ہو جائیں گے‘ جو علاقائی امن و استحکام کی ضمانت بنیں گے اور اِسی معاشی ترقی سے خطے کے ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لایا جا سکتا ہے۔