ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عالمی حدت ایک بڑا خطرہ بنتی جارہی ہے لیکن اس خطرے سے انسانیت، حیوانات اور نباتات کو بچانے کیلئے کی جانے والی کوششیں اب تک ادھوری رہی ہیں۔تیس سال پہلے اقوام متحدہ کی جانب سے منعقد سائنسدانوں کے ایک اجتماع نے خبردار کیا تھا کہ اگر دنیا نے عالمی حدت کو کم کرنے کیلئے اجتماعی اور فیصلہ کن اقدامات نہ کیے تو انسانوں اور فطرت کو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور اب ماحولیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل نے کہا ہے کہ انسان بہت تیزرفتاری سے ماحول کو تباہ کررہے ہیں اور اگر دنیا تیزی سے گرین ہاوس گیسوں کا اخراج بند نہیں کرتی تو اس کے تباہ کن اثرات سامنے آئیں گے۔رپورٹ کے مطابق پچھلی چار دہائیاں 1850 سے لے کر گرم ترین رہی ہیں اور 2020 تاریخ کا گرم ترین سال تھا۔ انسانوں نے رومی سلطنت سے لے کر اب تک اتنی تیزی سے ماحول کو گرم نہیں کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق فضا میں کاربن ڈاء آکسائیڈ کی مقدار جتنی اب ہے اتنی بیس لاکھ برسوں میں نہیں دیکھی گء۔ سطح ہائے سمندر بلند ہورہے ہیں، منجمد برف پگھل رہی ہے جبکہ موسمی سانحے شدید تر اور دنیا کا ہر علاقہ متاثر کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں گلیشیئر اور قطب شمالی میں موجود برف پگھلنے کی سب سے بڑی وجہ انسانی عوامل ہیں۔اگر درجہ حرارت قبل از صنعتی دور سے دو درجے سینٹی گریڈ بڑھ گیا اور یہ گرین ہاوس گیسوں کے اخراج کی رفتار میں یقینی ہے، تو اس سے گرین لینڈ اور انٹارکٹیکا کے برف کی چادر پگھل جائے گی اور سطح سمندر چھ فٹ تک بلند ہوکر ساحلی شہروں کو ہڑپ کرلے گا۔ حرارتی لہریں اس سے پانچ درجے سینٹی گریڈ تک گرم ہوجائیں گی اور زمین کے وہ حصے جو اب حدت کی رفتار کم کررہے ہیں، مثلا سمندر جو زیادہ حرارت جذب کررہے ہیں یا بادل جو دھوپ کو فضا میں واپس کرتے ہیں، وہ ایسا کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ہوا میں موجودہ مقدار سے زیادہ نمی ہوگی جس کے نتیجے میں کہیں خشک سالی ہوگی تو کہیں زیادہ بارشیں۔ اگر چار درجے حرارت بڑھ گء تو اس کے نتیجے میں شیدی حرارتی لہریں جو پچاس برس بعد آتی تھیں ہر سال آنا شروع ہوجائیں گی۔سطح سمندر سے کم بلندی والے ممالک، جیسے براعظم افریقہ کے چند ممالک، کیلئے سطح سمندر کی بلندی مستقل خطرہ ہے اور غریب اور گرم ممالک عالمی حدت اور ماحولیات میں شدید تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ مگر امیر ممالک بھی عالمی حدت کے اثرات سے بچ نہیں سکتے کینیڈا کو آگ اور جرمنی کو سیلاب نے اربوں ڈالر کا ٹیکہ لگایا ہے۔پچھلے دنوں کیلیفورنیا میں 5لاکھ ایکڑ جنگلات میں آگ لگی جبکہ وینس میں سیاح سینٹ مارک سکوائر میں ٹخنوں تک پانی میں گھوم رہے تھے۔اس لیے سب کو مل جل کر کام کرنا ہوگا۔پالیسی سازوں کیلئے رپورٹ کے بیالیس صفحات والے خلاصہ میں سطح سمندر کی بلندی، منجمد برف اور گلیشیئرز کے ذخیرے کی کمی اور بحروں کی تیزابیت کو پچھلے ہزاروں برس میں بے نظیر کہا گیا ہے۔ واضح رہے سمندروں میں اضافی حرارت سے سمندری طوفانوں زیادہ تیز اور خطرناک ہوجاتے ہیں۔ جب تک گرین ہاس گیس اخراج میں ہم فوری، تیز اور بہت زیادہ کمی نہیں کرتے تو درجہ حرارت کو 1.5 درجے تک گھٹانا ناممکن ہوگا۔ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ گیسوں کے اخراج کا سلسلہ اگلے دو دہائیوں تک تقریبا موجودہ رفتار سے جاری رہے گا۔ اور چند دہائیوں بعد ہی انسان کاربن کے اخراج کم کرنے کی طرف آئیں گے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اینٹونیو گٹیریز کے بقول یہ رپورٹ انسانیت کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اب نہ تاخیر کا وقت بچا ہے اور نہ بہانوں کا موقع ہے۔اگرچہ قابل تجدید توانائی کا استعمال بڑھ رہا ہے اور کوئلے کا کم ہو رہا ہے اور سرمایہ کار اور رائے دہندہ گان سب ماحول دوست پالیسیوں پر زور دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی موافقت کے منصوبوں پر کام کرنیوالے ترقی پذیر ممالک کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن موجودہ منصوبے اور کام کی رفتار لوگوں کی حفاظت کیلئے کافی نہیں ہیں۔دنیا میں 191 ملکوں میں سے صرف آٹھ ممالک ہی پیرس ماحولیاتی معاہدے کے اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ماحولیاتی تباہی کی ذمہ دار جنگیں، تنازعات اور انسانی ہوس اور صنعتی ممالک ہیں۔ دنیا کے وہ 10 ممالک جن کا کاربن اخراج سب سے زیادہ ہے ان میں چین 9.3 گیگا ٹن، امریکا 4.8 گیگا ٹن اور بھارت 2.2 گیگا ٹن کے ساتھ بالترتیب پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ماحولیاتی آلودگی سے عالمی سطح پر اوسط عمر میں 3 سال کی کمی واقع ہوئی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی پر کام نہ کیا گیا تو2060 تک دنیا کو 44 کھرب ڈالر کا نقصان ہوگا جس میں زیادہ تر مشرق وسطی، شمالی وصحارا افریقہ اورجنوبی و جنوب مشرقی ایشیا میں ہوگا۔ حالیہ عرصے میں دنیا کے کئی حصوں میں شدید بارشوں اور سیلابوں سے بڑے پیمانے پرجانی اورمالی نقصانات ہو چکے ہیں، جن میں جرمنی، جاپان اور چین کے سیلاب تازہ ترین ہیں۔ اگرچہ پاکستان فضا میں کاربن اخراج اور عالمی حدت کا زیادہ ذمہ دار نہیں لیکن عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے ایک اندازے کے مطابق پاکستان کوموسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سالانہ 3.8 ارب ڈالرز نقصان کا سامنا ہے۔اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے چند اقدامات کرنے ہوں گے۔ دنیا معدنی ایندھن کا استعمال پہلے کم اور ختم کردے، قابل تجدیدتوانائی کی طرف رجوع کرے، کام، خوراک اور سفر بارے انسان اپنی عادتیں بدل ڈالے، کاربن ڈاء آکسائیڈ اور طاقتور گرین ہاس گیسوں، جیسے میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ، کا اخراج کم کرلے اور قدرتی نظام جیسے جنگلات اور انسانی ایجادات فضا سے زیادہ سے زیادہ کاربن باہر نکالنے لگیں۔ یوں دنیا 2050 تک صفر اخراج تک پہنچ جائے گی اور درجہ حرارت قبل از صنعتی دور کے 1.5 درجے پر مستحکم ہوجائے گی، گلیشیئرز پگھلنا بند ہوجائیں گے اور سطح سمندر کی بلندی سست ہوجائے گی۔قابل تجدید توانائیوں کیلئے بڑے پیمانے پر نجی سرمایہ کاری نیز ٹیکنالوجی کی منتقلی اور ترقی پذیر ملکوں میں صنعتی ترقی یافتہ ملکوں کی طرف سے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ امیر ممالک کو ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں غریب ممالک کی مالی اور تکنیکی مدد کرنی چاہئے۔عالمی بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور دیگر ترقیاتی بینکوں کو بھی اس حوالے سیز مدد کرنی چاہئے۔ انسانوں کے پاس موقع ہے کہ اگر وہ بہتر مستقبل چاہتے ہیں اور سانحوں سے بچنا چاہتے ہیں تو انہیں گرین ہاؤس گیسو ں کے اخراج کو جلد اور تیزی سے کم کرنا ہوگا۔