قول وفعل میں تضاد۔۔۔۔

جی میں آتا ہے میں بھی موٹیویشنل سپیکر بن جاؤں۔یو ٹیوب پر اپنے لیکچر جھاڑتا پھروں۔ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں منٹس میرے کھاتے ہیں آ جائیں۔پھر مجھے باہر کے باہر مستقل آمدنی شروع ہو جائے۔ مگر جب اس قسم کاخیال آتاہے تو جسم و جاں میں ایک جھرجھری سی دوڑ جاتی ہے۔ایک لرزے کی لہر تن بدن میں گھوم جاتی ہے۔محسوس ہوتا ہے کہ میرے جامے پر گندے انڈوں اور ٹماٹروں کے بے شمار داغ نمودار ہو چکے ہیں۔جن سے میرے کپڑے سرخ ہو چکے ہیں۔کیونکہ اپنے بارے میں مجھے معلوم ہے میں کیا ہوں۔چھلنی کوزے کوکیوں کہے کہ تجھ میں سوراخ ہے۔ دماغ کہتا ہے  مجھے عوام کے ساتھ اس قسم کامذاق نہیں کرنا چاہئے۔ میری اس قسم کی تقریر میرا خود اپنا مذاق اڑانا ہوگا۔جب یہ خیال دل سے نکل جاتا ہے تو میرے موبائل پر ابھرنے والی میری تصویر سرخ نشانات سے خالی ہو جاتی ہے۔بلکہ صاف ستھری ہو جاتی ہے۔پھر اپنی تصویر اچھی لگنے لگتی ہے۔سوچتا ہو ں مجھے کیا ضرورت کہ بیٹھے بٹھائے یوٹیوبر بن کر خود کو صاحبانِ عقل و دانش کے نوکیلے پنجوں میں دے دوں۔ ہائے ہمارا تو مسئلہ یہی ہے۔ میں کہوں بعض جگہ نہیں اکثر ہمارے ہاں یہی تضاد ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔ہمارے بھائی بند سٹیج پر آکرلمبی چوڑی تقریریں کریں گے۔ ہماری ہمت بندھانے کیلئے اپنے ذخیرہ الفاظ کو خوب ضائع کریں گے۔مگر وہاں بیٹھے ہوئے ان کے سامعین میں سے بعض ان کو بہت قریب سے جانتے ہوں گے۔ وہ یہ کہ باتیں تو بہت اچھی کرتا ہے۔مگر  اس کے کہنے اور کرنے میں اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان میں ہے۔ہم جو کہتے ہیں اگر وہی خود کرتے ہوتے تو آج ہمارا دیس دنیا بھرمیں ترقی کی راہ میں دوڑنے والے ملکوں میں سب سے اول نمبرپر آتا۔ہمارے مسئلے تو بہت ہیں۔ کسی سے پوچھو کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کون سا ہے۔ اس کے جواب میں ہرآدمی اپنا سا راگ الاپے گااپنی بین بجائے گا۔ مگر سب سے بڑامسئلہ کیاہے اس کے بارے میں میری رائے بھی جان لیں جو میں نے بیان کردی ہے۔ کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے،ایک چین سموکرکو نہیں چاہئے کہ وہ دوسروں کو اس طرح کی ہدایت دے جس پر وہ خود عمل پیرا نہ ہو۔ بلکہ اس موقع پر اس کی نصیحت کا الٹا اثرہوگا۔لوگ اسے برا بھلابھی کہیں گے اور وہی کام دوبارہ دوبارہ کریں گے۔جی میں کہیں گے کہ جاؤ یار خود تو اس پر عمل کرو پھر ہمیں تلقین کرنا۔دوسرے کو برائی سے روکنا برا نہیں۔مگر اس کیلئے بنیادی تقاضا ہے کہ بندہ وہ کام خود تونہ کرتا ہو۔ اس کیلئے تاریخ کے اوراق الٹنے سے اور اپنے ارد گرد دیکھنے سے ان گنت مثالیں مل جاتی ہیں۔