کورونا وبا سے صرف انسان ہی نہیں بلکہ انسانی معاشرت اور بالخصوص تعلیم کے بنیادی‘ ثانوی اور اعلیٰ شعبے متاثر ہیں‘ جن کی بحالی معیشت ہی کی طرح باوجود کوشش بھی نہیں ہو رہی۔ مثال کے طور سال 2018ء کے دوران ماسٹرز میں داخلے لینے والوں کے لئے کورونا وبا ء کے باعث درس و تدریس اور امتحانات تاخیر کا شکار ہوئے اور یہ معمولات ایک مرتبہ بگڑنے کے بعد سے پوری طرح بحال نہیں ہوئے ہیں۔ جامعات کی جانب سے آن لائن امتحانات اور نئے درجات میں منتقلی (پروموشن) کا کہا گیا مگر طلبہ کی بڑی تعداد تعلیمی سال مکمل ہونے کا انتظار کر رہی ہے اور اِس صورتحال میں امتحانات کی ہر تاریخ کے بعد نئی تاریخ سامنے آتی ہے۔ کیا کسی ایسے ماحول میں طلبہ و طالبات گھر بیٹھے توجہ سے پڑھ سکیں گے جبکہ امتحانات کا شیڈول بار بار تبدیل کیا جاتا ہو؟ کئی دیگر شکایات بھی سننے میں آئی ہیں جیسا کہ ایم ایس سی کے طلبہ کو ایم اے میں شمار کر لیا گیا ہے! یوں ایک غیریقینی کی صورتحال ہے جس میں 2 سالہ ڈگری 3 سال بعد بھی مکمل نہیں ہو رہی! اگر آن لائن امتحانات حسب اعلان منعقد ہوتے ہیں تب بھی 2 سال کی ڈگری طلبہ کو 4 سال میں حاصل ہوگی۔ تعلیمی نظام و بندوبست کو بہتر کرنے کے لئے ماہرین کی جانب سے کتنی بھی تجاویز دی جائیں یا طلبہ جتنے بھی مطالبات کرلیں لیکن متعلقہ حکومتی ادارے بالخصوص نجی تعلیمی اداروں سے متعلقہ وزارت ِتعلیم کے حکام اپنے احکامات اور قواعد پر نظرثانی کرنے جیسی ضرورت پر توجہ نہیں دیتی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اِس بارے غور کرنا چاہئے اور تفصیلاً غور کرنا چاہئے کہ وہ تعلیم کے کس ماڈل کو اپنانا چاہتے ہیں۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ امتحانات تعلیمی اداروں میں ہی ہونے چاہئیں‘ تو پھر ان کو آن لائن تعلیم کو ترک کرنے کا اعلان کر دینا چاہئے۔ جہاں تک نجی تعلیم ختم کرنے والا معاملہ ہے تو اس پر ہماری سوسائٹی اور طلبہ تنظیموں سمیت سیاستدانوں‘ صحافیوں اور سول سوسائٹی کو آواز اٹھانی چاہئے تاکہ جو غریب نوجوان حصولِ علم کا شوق رکھنے کے باوجود محنت مزدوری کی وجہ سے ریگولر تعلیم حاصل نہیں کرسکتے وہ تعلیم سے محروم نہ رہ جائیں۔کورونا وباء کی چوتھی لہر جاری ہے اور ایک بار پھر تعلیمی ادارے معمول کے مطابق کام نہیں کر رہے جبکہ درس و تدریس کا نظام آن لائن ہوچکا ہے۔ ویسے تو پاکستان واحد ملک نہیں جو اس ’آن لائن تعلیمی فارمولے‘ پر عمل پیرا ہے بلکہ کئی دیگر ممالک بھی اس مشکل کا یہی حل سمجھ رہے ہیں لیکن بنیادی چیز یہ ہے کہ مشکل فیصلہ کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے جبکہ وبا ء سے حفاظت کے لئے تعلیم کو آن لائن کرنے کو واحد آپشن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ تعلیم مستقبل کا دروازہ ہے اور تعلیمی ایام زندگی کا بہترین وقت ہوتا ہے جس کے لئے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ تعلیم سے متعلق حکومتی فیصلوں کا خیر مقدم کریں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اور جامعات کی انتظامیہ کے پاس تعلیمی ادارے کھولنے اور بند کرنے کے علاوہ بھی کوئی تیسرا پلان ہے تاکہ بنا رکاوٹ تعلیمی سلسلہ جاری رہ سکے؟ اس سوال کا جواب ابھی تک نہیں مل رہا۔ابتدا ء میں آن لائن ذریعہئ تعلیم کے لئے جامعات تیار نہیں تھیں کیونکہ بہت سارے طالب علم اور اساتذہ آئی ٹی اور جدید ٹیکنالوجی سے ناآشنا تھے‘ یہی وجہ ہے کہ جب کورونا کی وبا نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا تب آن لائن ذریعہ تعلیم کا پہلے سے نہ کوئی نظام موجود تھا اور نہ ہی تجربہ۔ حالانکہ جامعات میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور اسٹوڈیوز پہلے ہی متعارف ہوجانے چاہئے تھے۔