گرما۔۔ گرمی۔۔۔۔۔۔۔

مجھے تو وہ آدمی یاد آتا ہے۔جوبیماری کے کارن نزع کے عالم میں تھا۔ اس لمحے اس کے گرد اس کے تمام گھروالے گول دائرہ میں اداس اور ناامید چہرے لئے کھڑے تھے۔عورتیں تھیں اور مرد سب اس کی سانسیں گن رہے تھے۔اس پر جھکے ہوئے تھے۔مریض کی بہتری کے آثار نہ تھے۔ جب ایک لمحے کو مریض کے ہونٹ ہلے تو سب کے سب یکبارگی پھر سے اپنے کان مریض کے ہونٹوں کے قریب لے گئے۔ ان گھر کے افراد میں اس کے بیٹے سب سے آگے تھے۔ پھر بیٹیاں پیچھے تھیں۔ اس کے ساتھ اس کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی تھے۔ مگر ان بچوں کو اپنے والدین کی طرح مریض سے اس طرح کی دل چسپی نہ تھی۔ وہ تو فقط اس کی صحت یابی چاہتے تھے۔ جب اس مریض کے ہونٹ ہلے تو سب جھکے کہ شاید بابا جی اپنی جائیداد کی تقسیم کے حوالے سے کچھ نصیحت وصیت کرناچاہتے ہیں۔ اس لئے سب اگر ایک بار ہی سن لیں تو کسی کو بعد میں یہ شکایت نہ ہو کہ میں نے کچھ نہیں سنا تم جھوٹ بولتے ہو۔مگر اس کمزوری اور نقاہت میں مریض کے منہ سے ایک ہی سوال نکلا ”بجلی آئی ہے“۔ سوال کیوں نہ کرتا کہ صبح سے لائٹ نے اس گرمی کے سخت دنوں میں آنا جانالگا رکھاتھا۔ پھر آخری بار جوگئی توعین دوپہر کے وقت دو گھنٹے سے تاحال نہیں آئی تھی۔ اے سی بھی بند تھا اور یوپی ایس نے بھی دو گھنٹے کام کرکے ہتھیار پھینک دیئے تھے۔بجلی کو قرار ہو تو یو پی ایس میں چارج بھی ٹھہرجائے۔اب تو ہاتھ کے پنکھے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ پنکھا کبھی ایک کے ہاتھ میں آتا کبھی دوسرے فرد کے ہاتھ چڑھتا۔آج جیتے جاگتے اور تندرست لوگ بھی اس بابا جی کی طرح مریض بنے ہیں۔ پھر شہریوں کے ہاں اے سی الگ سے لگے ہیں جو خاموش ہو چکے ہیں لیکن اگر لگ جائیں تو ہوا ٹھنڈی دینے کے علاوہ اس میں سے ایک ایسی گیس خارج ہوتی ہے تو کمرے کے باہر کے ماحول او ر آب ہوا کو پوری دنیا میں دوسرے لاکھوں اے سی کے ساتھ مزید گرم کرتی ہے۔اس لئے یہ کہنا درست ہوگا کہ جہاں گرمی کو ختم کرنے کے بجلی کے سامان ہیں وہ اصل میں دنیا بھر کے موسم کو گلوبل وارمنگ کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ مگر دوسری طرف انسان نے ہر حالت میں کہ گرمی ہو یا سردی گولیاں برس رہی ہوں یا بارش برستی ہو اپنی حفاظت کاسامان تیارکر رکھا ہے۔سولر سسٹم کی طرح پلیٹیں لگا کر بغیر سورج کی روشنی کے اپنی بلڈنگ کو ٹھنڈا کرنے کا سامان کر رہاہے۔یہ اگر رواج پا گیا تو بجلی کے بل سے بھی خلاصی ملے گی اور آسانی بھی ہاتھ آئے گی۔مگر ہمارے ہاں توسولر سسٹم کے آ جانے کے باوجود بجلی کی بحالی کا حال پہلے سے بد تر ہے۔پورے شہرکے رہنے والوں کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں۔فیس بک کھول کر دیکھو ہرعلاقے سے دہائی ہے کہ ہمارے ہاں تو بجلی نہیں آئی ہے۔ایک تماشا سجا رکھا ہے۔کسی کے گھر جاؤ پوچھو آپ کس وقت سوجاتے ہیں۔ کیونکہ سرِ شام صحن میں چارپائیاں جو بچھا دی ہیں۔ان کا جواب ہوتا ہے بجلی نے کھیل رچارکھا ہے۔ہو بھی تو گرمی اتنی ہے کہ نیند آنکھوں سے دور بھاگی جاتی ہے۔پہلے پہل تواتنی گرمی نہیں ہوا کرتی تھی۔ معلوم نہیں اب کے کیاہوا کہ گذشتہ سالوں میں پچھلے سالوں سے زیادہ گرمی پڑی اور اس سال تو انتہا ہوگئی ہے۔ایسے میں بجلی کی آنکھ مچولی جاری ہو تو زندگی رک سی جاتی ہے۔جانے کون سا قصور ہم سے سرزد ہو گیا ہے۔بجلی والوں کی جانب سے جس کی اتنی زیادہ سزا دی جا رہی ہے۔بجلی آنے جانے سے الیکٹرانکس کی اشیا ء جل جاتی ہیں۔زیرِ زمین بھی کنوؤں اور باؤلیوں میں پانی برائے نام رہ گیا ہے۔پھرلوڈ شیڈنگ کے ساتھ گرمی اور گرمی کے ساتھ کورونا میں لاک ڈاؤن پھر بیروزگاری کے کارن کام کاج کہا ں۔لوگ باؤلے ہوئے گھوم رہے ہیں۔اچانک بجلی آئے تو کبھی تین سو بیس آ جاتی ہے۔پھر بھاگو اور کمرہ کمرہ گھومو اور اے سی بند کرو فریج بند کرو کہ جل نہ جائیں۔ اب سڑکوں پر احتجاج کرنا بھی سالوں پہلے سے ترک کر دیا گیاہے۔ کیونکہ لوگ احتجاج کر کے ماٹھے ہو چکے ہیں۔کس چیز کے لئے احتجاج کریں گے۔ احتجاج کرنے نکلتے ہیں ٹائر جلاتے ہیں پولیس افسر آ جاتا ہے۔اس کے ساتھ مذاکرات ہوتے ہیں۔وعدہ ہوتا ہے کہ کسی علاقے کو بجلی ملے نہ ملے آپ کو ضرور دیں گے۔کیونکہ آپ کا مسئلہ پورے شہر میں سب سے زیادہ گھمبیر ہے۔مگر کیاہوتا ہے۔وہی جو چند روز قبل تھا۔یہ لوگ گھر آ جاتے ہیں۔وہاں بجلی کا وہی ظلم ناروا طریقے سے جاری رہتا ہے۔آخر وہ دو ایک مرتبہ کے بعداحتجاج کے لئے بھی نہیں نکلتے۔انھوں نے دوسرے علاقے کے لوگوں کی طرح سب کچھ حالات پر چھوڑ دیا اور چپ کر کے بیٹھ گئے ہیں۔