مضر صحت پینے کا پا نی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک خبر اخبارات میں لگ گئی اس پر اداریے بھی لکھے گئے شذرے بھی لکھے گئے الیکٹرا نک اور سوشل میڈیا پر بھی یہ خبر پھیل گئی چاروں اطراف میں تقسیم ہوئی حکومت کی طرف سے اس کی تردید بھی نہیں آئی کسی اعلیٰ شخصیت نے اس کا نوٹس بھی نہیں لیا میں نے کراچی، لا ہور اور اسلام آباد کے ہو ٹلوں میں جگہ جگہ لکھا ہوا دیکھا تھا کہ نلکے کا پا نی پینے کے قا بل نہیں ہے اخبارات کی خبر بھی اس حوالے سے ہے قومی اسمبلی میں ایک سوال کے جواب میں وفا قی حکومت کی طرف سے پینے کے پا نی کی صورت حا ل کے جو اعداد و شمار دیئے گئے ہیں ان کی رو سے وطن پا ک کے 29بڑے شہروں میں نلکوں کا پا نی پینے کے قا بل نہیں ہے اب تک حکومت نے صر ف 29شہروں کا سروے کیا ہے اگر مزید شہروں اور قصبوں کا سروے ہوا تو خد شہ ہے کہ کسی بھی شہر اور قصبے میں نلکوں کا پا نی پینے کے قا بل ثا بت نہیں ہو گا لیبارٹری میں ٹیسٹ کے بعد ہر شہر اور قصبے میں نلکوں کا پا نی ان کو آلودہ ہی ملے گا یہی وجہ ہے کہ بڑے شہروں میں لو گ بڑے مکانوں میں رہتے ہیں مگر نلکوں کا پا نی کھا نے پینے میں استعمال نہیں کر تے پینے کا پا نی بڑی بوتلوں میں آتا ہے اس کا الگ ٹھیکہ دار ہے روزانہ بھرے پا نی کی بو تل مہیا کر کے خا لی بو تل اٹھا لیتا ہے اور مہینے کے آخر میں نلکے کا بل الگ آتا ہے بو تل کا بل الگ آتا ہے مگر یہ سہو لت صرف چند شہروں میں دستیاب ہے پشاور، مردان، نو شہرہ، ایبٹ آباد اور ڈی آئی خا ن سمیت خیبر پختونخوا کے کسی شہر میں دستیاب نہیں 1987ء میں ایک غیر سر کا ری تنظیم نے گلگت،چترال، حیدر آباد اور کراچی میں پینے کے پا نی کا سروے کیا۔ پا نی کے نمو نوں کا لیبارٹری ٹیسٹ کروایا اس کے نتا ئج کا ہسپتا لوں میں بیماریوں کے سروے کیساتھ موازنہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان علا قوں میں 83فیصد بیما ریاں پینے کے آلودہ پا نی کی وجہ سے پھیلتی ہیں ان بیماریوں میں معدہ، جگر، دل‘ پھیپھڑوں اور گردوں کی بیماریاں نما یاں طور پر شامل تھیں نیز یہ بھی رپورٹ ہوئی تھی کہ سانس کی بیماریاں اور کینسر پھیلنے کا سبب بھی پینے کا آلودہ پانی ہے سر وے کے بعد دیہا تی علا قوں میں پینے کا صاف پا نی مہیا کرنے کے بڑے بڑے منصوبے دئیے گئے شہروں میں پرا نے واٹر ٹینک اور بو سیدہ پا ئپ تبدیل کروائے گئے اقوام متحدہ کی تنظیم یو نیسیف (UNICEF) 190ملکوں میں کام کر تی ہے اس کے مقرر کر دہ معیار کے مطابق سیمنٹ کی ٹینکی اور جستی پا ئپ اپنی عمر پوری کر نے کے بعد زہر آلود ہو جاتے ہیں نلکے کا پا نی ٹینکی میں بھی آلودہ ہو تا ہے جستی پا ئپوں میں بھی آلودہ ہو جا تا ہے چنا نچہ زنگ آ لود پائپوں میں جو پا نی آتا ہے وہ زہریلا ما دہ لیکر آتا ہے اور بیما ری پھیلا تا ہے بڑے شہروں کی نوا حی بستیوں میں نکاسی آب کا انتظام نہیں آلودہ پا نی زمین کے اندر جا تا ہے چھوٹے شہروں میں بھی سیوریج اور ڈر ینیج کا کوئی سسٹم نہیں اس لئے گھروں کا آلودہ پا نی زمین کے اندر جا تا ہے اور زیر زمین پا نی کو آلو دہ کر دیتا ہے ٹیوب ویلوں کو بھی زہر آلود کر تا ہے شہری آبا دی کی منصو بہ بندی با لکل نہیں ہو ئی۔ سول سوسائٹی اور بیو روکریسی کو ملکر اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے اگر غور کیا جا ئے تو معلوم ہو گا کہ ہمارے ہاں بجٹ سازی اور تر قیاتی منصو بہ بندی کے کام میں انجینئروں اور تربیت یا فتہ آفیسروں یعنی ماہرین کو موثر کردار دینے کی ضرورت ہے تاکہ وسائل کی تقسیم میں ضرورت کو مد نظر رکھنے کی بجا ئے مصلحت کو سامنے رکھنے کی روش ختم ہواور عوام کی بنیا دی ضروریات کو ترقیاتی منصو بہ بندی میں جگہ ملے۔