بی جے پی کا نیا سیاسی پینترا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھارت میں بی جے پی کی مرکزی اور علاقائی حکومتوں کو کورونا وائرس سے نمٹنے اور معاشی میدان میں خراب کارکردگی کے پیش نظر آئندہ انتخابات میں شکست یقینی نظر آرہی ہے اس لیے وہ کسی ایسے نئے نعرے کی تلاش میں ہیں جس سے جذباتی فضا بناکر وہ عام ہندوستانیوں سے دوبارہ وہ ووٹ لے سکیں۔بابری مسجد کے انہدام، رام مندر کی تعمیر اور کشمیر کو بھارتی یونین کا حصہ بنانے پر عوام سے ووٹ بٹورنے کے بعد وہ چاہتے ہیں اپنے نفرت و تعصب کے ایجنڈے کو دوام دینے کیلئے کوئی اور بہانہ ڈھونڈ لیں۔ مقصد صرف اپنی ناکامیوں، خراب کارکردگی اور اہم معاملات سے توجہ ہٹانا اور ہندو اکثریت کو مسلمانوں کے خلاف نفرت و تعصب میں مبتلا کرکے ان سے ووٹ حاصل کرنا ہے۔ بھارت اگرچہ خود کو جمہوریت، آزادیوں اور تکثیریت کا نمونہ قرار دیتا ہے مگر وہاں مودی اور بی جے پی نے اقتدار تک پہنچنے کیلئے پاکستان اور مسلمانوں کو بھارت کی تمام خرابیوں کا جڑ قرار دیا، ان سے وسیع عوامی نفرت پیدا کی اور پھر اپنے آپ کو ان سے نمٹنے، ہندو دھرم کے تحفظ اور بھارت کو ہندو ریاست بنانے کیلئے لازم بناکر پیش کیا۔ بی جے پی، جو 1989 تک ایک چھوٹی پارٹی تھی، کو اس نفرت، ہندو قوم پرستی اور انتہا پسندی کے پرچار، بابری مسجد کے انہدام اور رام مندر کی تعمیر کی مہم نے ملک کی سب سے بڑی پارٹی میں تبدیل کردیا۔بی جے پی کی نظریاتی ماں آر ایس ایس کا بیانیہ مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بن جانے یا بھارت چھوڑنے کا ہے۔ اس کے ایک رہنما سبرامنیم سوامی نے مسلمانوں کو بھارت کیلئے خطرہ قرار دیا، انہیں ہندؤں کے برابر شہری تسلیم کرنے سے انکار کیا اور ان سے ووٹ کا حق چھین لینے کا مطالبہ کیا۔اترپردیش کے انتہاپسند اور ہر وقت زعفرانی لباس پہنے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ 2024 کے عام انتخابات میں مودی کے ساتھ وزارت اعظمی کے امیدوار بننا چاہتے ہیں لیکن اپنی حکومت کی خراب کارکردگی کی وجہ سے اسکی ساکھ خراب ہوگئی ہے۔ چنانچہ وہ اترہردیش کی اسی فیصد ہندو آبادی کو بیس فیصد مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ اس کے بقول مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی صوبے کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ وہ ایک قانون لانا چاہتے ہیں جس کے تحت سرکاری سکیموں، سہولیات، ترقیوں اور رعایت کا فائدہ صرف دو بچوں والے لوگوں کو ملے گا اور دو سے زیادہ بچوں کے والدین نہ صرف ان سے بلکہ سرکاری ملازمتوں سے بھی محروم رہیں گے۔آدتیہ ناتھ کے بقول اگر مسلمانوں کی آبادی قابو نہ کی گئی تو وہ چند برسوں میں اکثریت میں آجائیں گے۔ کہاجاتا ہے تعصب بندے کو اندھا کردیتی ہے ورنہ جب مسلم حکمرانوں کے ایک ہزار سالہ دور حکومت اور پھر برطانیہ کے دو سو برسوں کے دوران یہاں ہندو اقلیت میں نہ پہنچے تو اب بی جے پی حکومت میں ان کی آبادی کو کیسے اور کیا خطرہ ہوسکتا ہے؟ فی الحال مسلمان بھارت میں 20فیصد سے کم آبادی رکھتے ہیں اور موجودہ شرح آبادی سے کئی دہائیوں تک بھی ایسا امکان نہیں۔ حتی کہ اگر پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کی پوری آبادیاں بھی ان سے جا ملیں پھر بھی ہندو اکثریت میں ہی رہیں گے۔واضح رہے بی جے پی کا جو رہنما اس مجوزہ قانون کے ذریعے مسلمانوں کی آبادی کو قابو کرنے کی بات کررہا تھا اس کے اپنے آٹھ بچے ہیں۔ آدتیہ ناتھ کے بعد آسام کے وزیر اعلی ہیمت بسوا سرما، جسے اسمبلی انتخابات میں مسلم مخالف بیانیہ سے کامیابی ملی، کی حکومت ہندو علاقوں میں گوشت فروخت کرنے پرپابندی لگارہی ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ ایک طرف آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافے کا مقابلہ کرنے کیلئے ہندوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کا کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف آر ایس ایس کے سپاہی مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے وسائل پر بوجھ کی بات کررہے ہیں۔ دوسری طرف بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا جا رہا ہے وہ اپنی جگہ ایک الگ المیہ ہے اور بین الاقوامی ادارے بھارت میں انسانی حقوق کی زبوں حالی پر سخت نکتہ چینی کر رہے ہیں مودی سرکار کی اس سے بڑی ناکامی کیا ہو گی کہ یہاں پر صوبوں کے در میان خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہوا ہے اور حال ہی میں آسام اورمیزورام کے درمیان کشیدگی اس مرحلے پر پہنچی کہ دونوں صوبوں کی پولیس نے ایک دوسرے کے خلاف مورچے سنبھالے اور یوں دو صوبوں کے درمیان سرحد پر ایسی کشیدگی دیکھنے میں آرہی تھی جیسے دو ممالک کے درمیان جنگ چھڑ گئی ہو ایسے حالات میں متعصب مودی سرکار کی توجہ اقلیتوں کو آپس میں لڑانے پر مرکوز ہے۔